.
◆══◆══ ﷽ ══◆══◆
🌻سِفلی افکار بنام گَھٹیا سوچ🌻
تحریر---💥سعیدالرحمٰن عزیز💥
✔←انسانی افکار و نظریات بلاواسطہ اُس کے مذہب اور علم پر وار کرتی ہیں، انسان کی سوچ جیسی ہوگی اُس کی علمیت، دین و لادینیت کی وضاحت بہت حد تک نمایاں ہوجاتی ہے.
اور اسی کے برخلاف انسانی سوچ کی ارتقاء انسان کے اعلیٰ خیالات، نظریات، تخیّلات کا آئینہ دار ہوتا ہے.
مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ کبھی کبھی انسانی سوچ خود انسان کو تہذیب کے دائرے سے باہر بھی کر دیتی ہے اور کبھی اُس کے مہذّب ہونے کا مظہر ہوتی ہے.
✔←مَیں سعیدالرحمٰن عزیز اِس مضمون کے ذریعہ چند ایسے خیالات کو اُجاگر کرونگا جو عوام و خواص میں پایا جاتا ہے اور جسے یقین کی حد تک مانا جاتا ہے.
آخر ایسی سوچ کی وجہ کیا ہے؟
1---رکشے اور کار کی ٹکّر میں ہمیشہ غلطی رکشے والے کی ہوتی ہے.
2---مالک کی نظر میں نوکر ہی کی غلطی مانی جاتی ہے.
3---ساس بہو کی نوک جھوک میں ہمیشہ غلطی بہو کی ہوتی ہے.
4---استاذ شاگرد کے اختلاف میں ہمیشہ شاگرد ہی خطاکار ہوتا ہے.
5---پولیس اور عوام کی لڑائی میں ہمیشہ عوام ملزم ہوتی ہے.
6---نیتاؤں کے قریبُ الْاِلَکشن بھاشنوں کو لوگ وحی کی طرح مان لیتے ہیں.
7---گھر کے پاس کسی طرح کی تکلیف دہ چیز پانے پر پورا شک پڑوسی پر جاتا ہے، یقین کی حد تک.
8---ہر غریب شخص جسمانی گندگی میں ملوّث ہوتا ہے.
9---بچے کے بگڑے پن کو لیکر والدین کی تربیت سوالیہ نشان ہوتی ہے.
جب کہ حقیقتاً دیکھا جائے تو ڈائریکٹ والدین کی تربیت پر سوال اُٹھانا بذاتِ خود ایک سوال ہے. نوح علیہ السلام کا بیٹا کافر نکل گیا اور محمد صلی الله علیہ وسلم مشرکوں میں پل بڑھ کر انسانیت کے درجۂ ارتقاء پر فائز ہو گئے یہ مثال ہے ہمارے لیئے کہ والدین کی تربیت کے باوجود بچہ بُرا اور اچھا ہو سکتا ہے.
10---صرف بلاتکاری ہمیشہ مکمل مجرم ہوتا ہے.
11---نیوز اور اخبارات کی خبریں بغیر تصدیق صحیح ہوتی ہیں.
12---ملزم ہمیشہ مجرم ہوتا ہے.
13---جُھوٹا شخص ہمیشہ جُھوٹ بولتا ہے.
14---لڑائی کرکے گھر لوٹے ہوئے بچے کو والدین ہمیشہ معصوم سمجھتے ہیں.
15---دولت سے انسان مہذّب اور باعزت بن جاتا ہے.
یہ فقط 15 مثالیں ہیں جو بطور مثال کافی ہیں. اِن مثالوں سے ہمیں انسانی افکار و نظریات کا مطالعہ بہت جلد ہوجائے گا کہ انسان کی سوچ کس قدر سِفلی و گھٹیا ہو سکتی ہے اگر وہ ایسی نظریات کا حامل ہے.
وسیع الظرف اور اعلٰی خیالات والے تب تک خاموش رہتے ہیں جب تک مکمل تصدیق نہ کرلی جائے.
انسان کی مثبت سوچ ہی تو ہے جس کی وجہ سے وہ مضبوط ارادے والا، بہترین مشورہ دینے والا اور وقت کا بہترین مُنصِف بن سکتا ہے اور اُس کے اسی مثبت تخیّلات سے دین کا حامل بھی بن سکتا ہے اور ایسے لوگوں کو دینِ اسلام نے پسند بھی کیا ہے جسے قرآن نے "اِجْتَنِبُوا کَثِیرًامِّنَ الظَّن " کہہ کر متعارف کرایا.
جب کہ معاملات میں منفی رُخ اپنانے والوں کو ہمیشہ ذلّت و رسوائی مقدر بنی ہے نیز عوام و ربُّ العالمین کے پاس معتوب بھی ہوا ہے.
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو منفی و سِفلی سوچ سے بچائے.
📝---☆سعیدالرحمٰن عزیز☆
9670752787
.