﷽
نذر و منت ماننا مطلقا ممنوع ( مکروہ و حرام ) ہے
محدث العصر علامہ عبد المنان نورپوری رحمت اللہ علیہ
ہ ے ے ے ے ے ے ہ
سوال :
آپ فرماتے ہیں کہ نذر اطلاقاً منع ہے اگر مان لے تو پوری کرنی فرض ہے ۔
اس سلسلے میں یہ عرض تھی کہ درج ذیل حدیث کی روشنی میں وضاحت طلب ہے :
حَد َّثَنَا اَحْمَد ُبْنُ عَبْدۃَ الضَّبِیُّ حَدَّثَنَا الْمُغِیْرَۃُ بْنُ عَبْد ِالرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْد ِالرَّحْمٰنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدہٖ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ :
لَا نَذَرَ اِلاَّ فِیْمَا یُبْتَغٰی بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ ۔
" نذر صرف ان چیزوں میں ہے جن سے اللہ کی رضا مطلوب ہو ۔ "
اور دوسری روایت اس طرح تھی
" اِنَّمَا النَّذَرُ فِیْمَا ابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ ۔"
مسند أحمد ، ۶۷۱۴ ، ۲۷۳۳
پہلی روایت ابوداؤد ، کتاب الایمان و النذور ، باب الیمین فی قطیعۃ الرحم میں ہے ۔
شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے ان کی اسناد کو حسن کہا ہے ۔
التعلیقات الرضیۃ علی الروصۃ الندیۃ ، کتاب النذر ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نذر اللہ کی اطاعت میں ماننی جائز ہے ۔
( شاہد محمود ، مد ینہ منورہ )
جواب :
جناب لکھتے ہیں کہ :
" آپ فرماتے ہیں کہ نذر اطلاقاً ممنوع ہے اگر مان لے تو پوری کرنی فرض ہے ۔ "
تو محترم
نذر کا اطلاقاً ممنوع ہونا
رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے ثابت ہے ۔
چنانچہ صحیح بخاری میں ہے :
عَنْ عَبْد ِ اللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ :
" نَھَی النَّبِیُّ ﷺ عَنِ النَّذْرِ " ، وَ قَالَ : إِنَّہٗ لَایَرُد ُّ شَیْئًا ، وَّ لٰکِنَّہٗ یُسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنَ الْبَخِیْلِ " ۔ ( 1 )
" رسول اللہ ﷺ نے نذر سے منع فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ وہ کسی چیز کو واپس نہیں کر سکتی البتہ اس کے ذریعے بخیل کا مال نکالا جا سکتا ہے ۔ "
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں :
" و فی قول ابن عمر فی ھذہ الروایۃ : أَوَلَمْ تُنْھَوْا عَنِ النَّذْرِ ، نظر لأن المرفوع الذی ذکرہ لیس فیہ تصریح بالنھی ، لکن جاء عن ابن عمر التصریح ففی الروایۃ التی بعدھا من طریق عبد اللہ بن مرۃ و ھو الھمد انی بسکون المیم عن ابن عمر قال : نھی النبی ﷺ عن النذر ۔ و فی لفظ لمسلم من ھذا الوجہ : أخَذ رسول اللہ ﷺ ینھی عن النذر ۔ و جاء بصیغۃ النھی الصریحۃ فی روایۃ العلاء بن عبد الرحمن عن أبیہ عن أبی ھریرۃ عند مسلم بلفظ : لا تنذروا " ۔ ۱ھ ( ۱۱ / ۵۷۷ )
و قال الحافظ فی الفتح :
" و قال الترمذی بعد أن ترجم کراھۃ النذر و أورد حدیث أبی ھریرۃ ، ثم قال : و فی الباب عن ابن عمر : و العمل علی ھذا عند بعض اھل العلم من أصحاب النبی ﷺ وغیرھم کرھوا النذر ، و قال ابن المبارک : معنی الکراھۃ فی النذر فی الطاعۃ و فی المعصیۃ ، فإن نذر الرجل فی الطاعۃ فوفی بہ فلہ فیہ أجر ، و یکرہ لہ النذر " ۔ ۱ھ ( ۱۱ / ۵۷۸ ) و انظر لمعنی الکراھۃ عن السلف مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ۔
تو آپ کا لکھنا
" اگر مان لے تو پوری کرنی فرض ہے "
علی الاطلاق درست نہیں خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نذر ممنوع ہے خواہ نذرِ اطاعت ہو ، خواہ نذرِ معصیت ہو ، البتہ نذرِ اطاعت کو پورا کرنا فرض و ضروری ہے جب کہ نذرِ معصیت کو پورا کرنا حرام ہے اور ممنوع ہے ۔ ( 2 )
رہی آپ کی پیش کردہ روایت تو اس کی سند میں مغیرہ اور عبد الرحمن دو راوی ہیں جن پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے اگر اس کلام کو در خور اعتناء سمجھا جاۓ تو روایت کمزور قرار پاتی ہے ، لہٰذا کوئی اشکال وارد ہی نہیں ہوتا کیوں کہ کمزور روایت کو لے کر صحیح متفق علیہ حدیث پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کمزور اور صحیح میں معارضہ قائم کیا جا سکتا ہے ۔ اور اگر اس کلام کو در خور اعتناء نہ سمجھا جاۓ تو اس کی اسناد کو حسن سمجھا جاۓ گا جیسا کہ آپ نے شیخ البانی رحمہ اللہ سے نقل فرمایا انہوں نے اسناد کو حسن کہا ، حدیث کو حسن نہیں کہا ۔ و فرق ما بینھما لا یخفی علی أہل العلم و المعرفة بالحدیث و مصطلحہ ۔
اس حدیث کو حسن تسلیم کر لیا جاۓ تو بھی یہ نہی عن النذر والی احادیث سے متعارض نہیں کیونکہ اس کا معنی و مفہوم وہی ہے جو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع حدیث
" مَنْ نَذَر أَنْ یُطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ ، وَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یَعصِیَہٗ فَلَا یَعْصِہٖ ۔" ( 3 )
" نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
جس نے اس کی نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اطاعت کرنی چاہۓ لیکن جس نے اللہ کی نافرمانی کی نذر مانی ہو اسے نہ کرنی چاہۓ ۔ "
کا معنی و مفہوم ہے ۔
غور فرمائیں
اِلاَّ فِیْمَا یُبْتَغٰی بِہٖوَجْہُ اللّٰہِ
اور
اِنَّمَا النَّذَرُ فِیْمَا ابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ
دونوں جملے خبریے ہیں اور حصر و قصر پر مشتمل ہیں تو ابو اسرائیل کی نذر
" أَنْ یَقُوْمَ ، وَ لَایَقْعُد َ ، وَ لَایَسْتَظِلَّ وَ لَایَتَکَلَّمَ " ( 4 )
رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے ایک آدمی کو کھڑے دیکھا ۔ " آپ ﷺ نے پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو اسرائیل ہے ۔ اس نے نذر مانی ہے کہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں ، نہ ساۓ میں بیٹھے گا ، نہ کسی سے بات کرے گا اور روزہ رکھے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے کہو بات کرے ، سایہ کے نیچے بیٹھے اور روزہ پورا کرے ۔ " کہاں سے آگئی؟
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ بالا حدیث
" من نذر أن یطیع اللّہ فلیطعہ ، و من نذر أن یعصیہ فلا یعصہ "
کا معنی و مفہوم کیا ہے ؟ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
" و الخبر صریح فی الأمر بوفاء النذر إذا کان فی طاعۃ ، و فی النھی عن ترک الوفاء بہ إذا کان فی معصیۃ ۔ ۱ھ ( ۱۱ / ۵۸۲ ) قولہ : و فی النھی عن ترک الوفائ… الخ کذا فی النسخۃ التی بیدی ، و الصواب : و فی النھی عن الوفاء بہ إذا کان فی معصیۃ ۔ فترک الترک ھنا ھو
الصحیح ۔ "
قال النواب رحمه اللہ تعالیٰ فی الروضۃ الندیۃ :
" قد ورد النھی عن النذر کما فی الصحیحین وغیرھما من حدیث ابن عمر قال : نھی رسول اللہ ﷺ عن النذر ، و قال : إنہ لایرد شیئا و إنما یستخرج بہ من مال البخیل ، و فیہما أیضا من حدیث أبی ھریرۃ نحوہ ، ثم ورد الاذن بالنذر فی الطاعۃ ، و النھی عنہ فی المعصیۃ کما فی الصحیحین وغیرھما من حدیث عائشۃ عن النبی ﷺ قال : من نذرأن یطیع اللہ فلیطعہ… الخ " ( ۲ / ۱۷۵ )
أقول : إِن الأحادیث التی ذکرھا النواب لاِثبات الاذن بالنذر فی الطاعۃ لاتدل علی الاذن و لا تثبته ، ثم لم یأت بدلیل ما علی تأخر أحادیث عائشۃ و عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ ، وغیرھما عن أحادیث ابن عمرو أبی ھریرۃ وغیرھما فی النھی عن النذر ۔
و اللہ اعلم
قرآن وحد یث کی رو شنی میں احکام ومسائل ، جلد 02 ، ص 793
ہ ے ے ے ے ے ہ
1 ۔ صحیح بخاری ، کتاب الایمان و النذور ، باب الوفاء بالنذر ۔
2 ۔ بخاری ، کتاب الایمان و النذور ، باب النذر فی الطاعۃ ۔
3 ۔ صحیح بخاری ، کتاب الایمان و النذور ، باب النذر فی الطاعۃ ۔
4 ۔ صحیح بخاری ، کتاب الایمان و النذور ، باب النذر فیما لا یملک و فی معصیۃ ۔
پی ڈی یف لنک :
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔