جمعہ، 17 جولائی، 2020

فضائل قربانی کی احادیث کا ایک علمی جائزہ ‏غازی ‏عزیر

.
 
 فضائل قربانی کی احادیث کا ایک علمی جائزہ 
 
محقق غازی عزیر 
 
 محدث، جلد 23، شمارہ 195، اپریل 1993 
 
http://magazine.mohaddis.com/shumara/231-apr1993/3839-fazael-qurbani-ahadees-ilmi-jaeza 
 
 ~~~~~~~~~~~~~؛
 
 شروع پیج 
 
عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کا درس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابتہ ہے، لہذا اس کی فضیلت میں کسی قسم کا شبہ لاحق نہیں ہونا چاہیے البتہ علمی اعتبار سے فضیلت قربانی کے بارے میں وارد احادیث کا تجزیہ تحقیقی ذوق رکھنے والوں کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے زیر نظر مضمون "محدث" میں شائع کیا جا رہا ہے ورنہ یہ مغالطہ شروع میں دور ہو جانا چاہیے کہ اس سے قربانی کی اصل فضیلت متاثر ہو سکتی ہے۔ قربانی ایک اہم اسلامی شعار اور سنت ابراہیمی کی یادگار کے طور پر ہمیشہ سے مسلمانان عالم میں مروج چلی آ رہی ہے محدثین کے ہاں جب کسی عمل کا اصل ثابت ہو تو اس کے بارے میں وارد احادیث کو روایت کرنے میں سختی نہیں کی جاتی۔ بلکہ ایسی احادیث کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا ہے جو اسرائیلیات کے بارے میں ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الوسیلہ" میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالہ سے اس سلسلے میں بڑی عمدہ بحث کی ہے اور محدثین کا فضیلت اعمال میں وارد احادیث کے بارے میں چند شرائط کے ساتھ رویہ واضح کیا ہے۔ اگرچہ احادیث میں امام حاکم رحمہ اللہ اور ترمذی رحمہ اللہ کا تساہل معروف ہے لیکن علماء امام حاکم رحمہ اللہ اور ترمذی رحمہ اللہ سے استفادہ اسی بنا پر کرتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں احادیث ضعیفہ اور موضوعہ کو فضائل اعمال میں بلا امتیاز کثرت سے استعمال کرنے کا رواج رہا ہے جس کا ایک اثر یہ ہے کہ عوام ان پر عقیدہ رکھ کر عمل کرنے لگے ہیں حالانکہ محدثین نے ضعیف حدیث کی بنا پر کوئی عقیدہ اختیار کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ غالبا محترم غازی عزیر کا مضمون بھی اسی رجحان کا رد عمل ہے۔

واضح رہے کہ ایسی احادیث پر نقد و جرح حدیث کے ثبوت اور عدم ثبوت کے اعتبار سے ہے۔ جہاں تک ان کی روایت اور بطور وعظ بیان کرنے کے تعلق ہے اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے معتدل نقطہ نظر کا حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے۔ بلکہ زیر نظر مضمون سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ بڑے بڑے محدثین ایسی روایات بیان کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے تھے اس سلسلے میں محدثین کا نقطہ نظر وضاحت کے ساتھ "محدث" کے شمارہ 2 جلد 9 بابت محرم، صفر 1339ھ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ (حسن مدنی) 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

پہلی حدیث 
اس باب کی پہلی اور سب سے زیادہ مشہور حدیث پیش خدمت ہے 

ما عملَ آدميٌّ من عملٍ يومَ النَّحرِ أحبُّ إلى اللهِ من إهراقِ الدَّمِ إنَّهُ ليأتي يومَ القيامةِ بقُرونها وأشعَارِها وأظلافِها وإنَّ الدَّمَ ليقعُ من اللهِ بمكانٍ قبلَ أن يقعَ من الأرضِ فطيبُوا بها نفساً 

"عید قربان کے دن کسی آدمی کا کوئی عمل اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پیارا نہیں۔ یاد رکھو قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں، اور کھروں سمیت آئے گا اور خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کے یہاں درجہ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہذا قربانیاں خوشی خوشی کیا کرو۔" 

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی "جامع" (1) کے باب "ما جاء فی فضل الاضحیہ" میں، امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی "سنن" (2) میں، امام حاکم رحمہ اللہ نے "مستدرک علی الصحیحین" (3) میں اور امام بغوی رحمہ اللہ نے "شرح السنہ" (4) میں بطریق عبداللہ بن نافع الصائغ عن ابی المثنی (سلیمان بن یزید) عن ہشام بن عروہ عن ابیہ عن عائشہ مرفوعا بہ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس کی تحسین فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں "وھذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ من حدیث ھشام بن عروۃ الا من ھذا الوجہ" اور امام حاکم رحمہ اللہ کا قول ہے "یہ صحیح الاسناد ہے" علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ، امام ترمذی رحمہ اللہ کے قول "وھذا حدیث حسن غریب" کی شرح میں امام حاکم رحمہ اللہ کا قول نقل فرماتے ہیں۔ (5)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی مشہور کتاب "منتقی الاخبار" کے باب " الحث علي الاضحيه " میں بحوالہ ابن ماجہ و ترمذی رحمہ اللہ (6) اور امام ابن قدامہ المقدمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المغنی" میں بحوالہ ابن ماجہ (7) تائیدا نقل کیا ہے مگر امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب "المجروحین" (8) میں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "میزان الاعتدال فی نقد الرجال" (9) میں اور امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواھیہ" (10) میں وارد کیا ہے اور فرماتے ہیں "یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔" یحییٰ کا قول ہے کہ عبداللہ بن نافع کچھ بھی نہیں ہے امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے متروک اور امام بخاری رحمہ اللہ نے منکر الحدیث بتایا ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "اس کی اخبار کے ساتھ احتجاج نہیں ہے۔" علامہ مناوی رحمہ اللہ نے "فیض القدیر" (11) میں امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی ہی اتباع کی ہے مگر حق بات یہ ہے کہ اس حدیث کے متعلق جتنی امام ترمذی رحمہ اللہ کی تحسین اور امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح غلط ہے، امام ابن الجوزی و مناوی رحمہما اللہ کی مذکورہ علت بھی اس سے کچھ کم غلط نہیں ہے۔ کیونکہ مؤخر الذکر ہر دو حضرات کو حدیث کے راوی عبداللہ بن نافع کے بارے میں وہم ہوا ہے۔ جارحین کے اقوال جو آں رحمہما اللہ نے نقل فرمائے ہیں وہ عبداللہ بن نافع ابوبکر المدنی کے بارے میں وارد ہیں نہ کہ عبداللہ بن نافع الصائغ مولی بنی مخزوم (جو کہ اصلا اس سند کا راوی ہے) کے بارے میں۔ 
عبداللہ بن نافع الصائغ سے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت لی ہے۔ ابن معین، نسائی، عجلی، خلیلی، ابن حبان، ذہبی اور ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ نے اس کی ثقاہت بیان کی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے "لم یکن فی الحدیث بذاک" ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس میں کوئی حرج نہیں ہے" آں رحمہ اللہ کا ایک دوسرا قول ہے کہ "ثقہ ہے" امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی ایک مرتبہ اس کو "لیس بہ باس" بتایا ہے۔ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "مالک رحمہ اللہ سے روایت کرتا ہے اور اپنی روایت میں مستقیم الحدیث ہے" امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "اس پر محدثین اعتبار کرتے ہیں" ابن قانع رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "صالح ہے" ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ثقہ صحیح الکتاب ہے، مگر اس کے حفظ میں لچک ہے" امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے "فی حفظہ شئی" امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "وہ حفظ حدیث میں لچک والا ہے اور اس کی کتاب اصح ہے" علامہ طاہر پٹنی گجراتی فرماتے ہیں "مجھے علم نہیں کہ کسی نے اس کو مطعون کیا ہے۔" مزید تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (12) میں مذکور کتب ملاحظہ فرمائیں۔ 
زیر مطالعہ حدیث کے ضعف کی علت سلیمان بن یزید ابو المثنی راوی ہے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے "تلخیص المستدرک" میں امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح پر تعقبا تحریر فرمایا ہے کہ "میں کہتا ہوں سلیمان رادی "واہ" ہے۔ بعض ائمہ نے اس کو ترک کیا ہے" امام منذری رحمہ اللہ نے بھی "ترغیب" میں اس پر تعقب کرتے ہوئے لکھا ہے "تمام مخرجین اس کو ابو مثنیٰ کے طریق سے روایت کرتے ہیں اور وہ راہ ہے اگرچہ بعض نے اس کی توثیق بھی کی ہے۔" (13)
سلیمان بن یزید ابو مثنیٰ کے متعلق علامہ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ابو حاتم رحمہ اللہ نے اس کی بہت زیادہ تضعیف کی ہے" امام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول ہے "اس کے ساتھ احتجاج جائز نہیں ہے۔" امام ذہبی رحمہ اللہ اور ابن الجوزی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ "ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے ابو مثنی کو منکر الحدیث اور غیر قوی بتایا ہے" امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "طبقہ ششم کا ضعیف راوی ہے" تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (14) کے تحت درج کتب کا مطالعہ مفید ہو گا۔ 
لہذا یہ حدیث سند میں عبداللہ بن نافع الصائغ کی موجودگی کے باعث نہیں بلکہ ابو مثنی سلیمان بن یزید الکوفی الکعبی کی بدولت "ضعیف" ہے۔ محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے بھی "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ" میں اس حدیث کو وارد کر کے اس پر "ضعیف" (15) ہونے کا حکم لگایا ہے 

 مگر افسوس کہ دور حاضر اور ماضی قریب کے علماء میں سے مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے "حیوۃ المسلمین" (16) میں، مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نے "قربانی کے احکام و مسائل" (17) کے زیر عنوان، مولانا طارق محمود مدنی صاحب نے "قربانی کی فضیلت" (18) کے تحت، مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب نے "قربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ قربانی" (19) اور "الاضحیہ واجبہ" (20) کے تحت، پروفیسر عبدالمجید صاحب نے "عید الاضحیٰ سنت ابراہیمی کی تجدید کا دن" (21) کے زیر عنوان، مولانا عبدالرشید ارشد صاحب نے "قربانی کی حقیقت رضائے الٰہی کا حصول اور سنتِ ابراہیمی کا احیاء ہے" (22) کے تحت، مولانا منظور احمد نعمانی صاحب نے "عیدالاضحیٰ، ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں" (23) کے تحت اور مولانا عبدالرؤف ظفر صاحب "مسئلہ قربانی کی شرعی حیثیت" (24) کے زیر عنوان اس حدیث کو مختصرا یا مطولا بطور دلیل نقل کیا ہے۔ فیا للعجب

~~~~

دوسری حدیث: 
اس باب کی دوسری مشہور حدیث یہ ہے 

" ما عمل آدمي في هذا اليوم أفضل من دم يهراق، إلا أن يكون رحما توصل "

"اس دن کسی آدمی کا کوئی عمل قربانی سے افضل نہیں ہے سوائے اس کے کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے" 

اس حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے "معجم الکبیر" (25) میں بطریق حسن بن یحییٰ الخشنی عن اسماعیل بن عیاش عین لیث بن ابی سلیم عن طاؤس عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی یوم الاضحیٰ (فذکرہ) روایت کیا ہے۔ پاکستان کے مشہور عالم دین مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نے اس حدیث کو اپنے محولہ مضمون میں بطور دلیل نقل کیا ہے مگر اس کے ضعف کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
"اس کو طبرانی رحمہ اللہ نے کبیر میں روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں یحییٰ بن حسن الخشنی ہے جو کہ ضعیف ہے ایک جماعت نے اس کی توثیق بھی کی ہے۔" (26)
اور علامہ منذری فرماتے ہیں
"طبرانی رحمہ اللہ نے اسے کبیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے مگر اس کی سند میں یحییٰ بن الحسن الخشنی ہے جس کا حال میرے سامنے نہیں ہے۔" (27)
یحییٰ بن الحسن الخشنی کہ جس کی طرف علامہ ہیثمی و علامہ منذری رحمہما اللہ نے اشارہ فرمایا ہے، کا ترجمہ باوجود تلاش بسیار کے راقم کو کہیں نہ مل سکا البتہ علامہ سمعانی رحمہ اللہ نے حسن بن یحییٰ الخشنی کے متعلق علماء کا اختلاف نقل کیا ہے۔ اصل "معجم الکبیر" میں بھی حسن بن یحییٰ ہی مذکور ہے۔ نہ معلوم کس طرح علامہ ہیثمی و منذری رحمہما اللہ کو اس راوی کے نام کے بارے میں وہم ہوا ہے۔
حسن بن یحییٰ الخشنی الدمشقی البلاطی "تہذیب" کے رجال میں سے ہے۔ ابن معین رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "کچھ بھی نہیں۔" نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ثقہ نہیں ہے" دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے "متروک" قرار دیا ہے۔ دحیم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "اس میں کوئی حرج نہیں" یحییٰ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ "ثقہ" اور دوسری مرتبہ "غیر ثقہ" کہا ہے۔ ابن عدی کا قول ہے "تحتمل روایایۃ" ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں "صدوق! مگر بُرے حافظہ والا تھا" ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں "بہت زیادہ منکر الحدیث تھا ثقات کی طرف سے بے اصل اور متقدمین کی طرف سے غیر متابع روایات بیان کرتا تھا۔" علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں "طبقہ ہشتم کا صدوق مگر کثیر الغلط راوی ہے" تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (28) میں درج کتب ملاحظہ فرمائیں۔
حسن بن یحییٰ الخشنی کے علاوہ اس حدیث کی اسناد میں سے اسماعیل بن عیاش اور لیث بن ابی سلیم کا شمار بھی ضعیف راویوں میں ہوتا ہے۔
اسماعیل بن عیاش کو ابو حاتم رحمہ اللہ نے "لین" یعنی لچک والا بتایا ہے۔ دارقطنی، بیہقی، ابن دقیق العید رحمہ اللہ، نسائی رحمہ اللہ اور منذری رحمہ اللہ وغیرہ نے ابن عیاش کو ضعیف قرار دیا ہے مگر ابن معین رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ نے ایک طرف تو ابن عیاش کو اپنی کتاب "الثقات" میں وارد کیا ہے مگر دوسری طرف اپنی دوسری کتاب "المجروحین" میں فرماتے ہیں "اس کی حدیث میں بہت خطا ہوتی ہے" امام بخاری رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں "اپنے شہر والوں سے روایت کرنے میں صدوق مگر دوسروں سے روایت کرنے میں مخلط ہے" امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے "اسماعیل تمام ضرب سے روایت کرتا ہے" علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اسماعیل بن عیاش مقبول ہے کیونکہ جمہور کے نزدیک اس کی وہ روایت جو وہ شامیوں سے بیان کرتا ہے قوی ہوتی ہیں" امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "جب اسماعیل عمر دراز ہوا تو اس کے حافظہ میں تغیر آ گیا تھا اس لئے وہ اپنی حدیثوں میں بکثرت خطا کرتا اور اسے اس کا قطعا علم نہ ہوتا تھا" تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (29) کے تحت مذکور کتب کا مطالعہ مفید ہو گا۔
اب اسی سند کے تیسرے ضعیف راوی لیث بن ابی سلیم کے حالات کا بھی ایک مختصر جائزہ لے لیں۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں "مضطرب الحدیث ہے" یحییٰ رحمہ اللہ و نسائی رحمہ اللہ نے اسے "ضعیف" بتایا ہے۔ ابن معین رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "اس میں کوئی حرج نہیں ہے" عجلی رحمہ اللہ کا ایک قول بھی یہی ہے۔ آں رحمہ اللہ کے دوسرے قول کے مطابق لیث "جائز الحدیث ہے" امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "محدثین کے نزدیک ضعیف ہے" امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی بہت سی روایات کو معلوم کرا ہے۔ ابن قطان رحمہ اللہ کا قول ہے "فیہ مقال" ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں "صالح شخص تھا مگر ضعیف الحدیث تھا۔"
ثقات میں سے شعبہ اور ثوری رحمہما اللہ نے اس سے روایت کی ہے، امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی متابعات میں اس سے تخریج کی ہے مگر امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں "ضعیف اور سیئی الحفظ ہے اس کے باوجود اس کی حدیث پر اعتبار و استشہاد کیا جاتا ہے" آں رحمہ اللہ ہی اپنی دوسری کتاب "تقریب" میں فرماتے ہیں "صدوق ہے، آخر عمر میں اختلاط کرتا تھا اور اپنی حدیث میں تمیز نہ کر پاتا تھا پس متروک ہے" خلاصہ یہ ہے کہ "فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ اہل علم میں سے ہے" ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں "آخر عمر میں اختلاط کا شکار تھا، اسانید گھڑتا تھا، مراسیل کو مرفوع کرتا اور ثقات کی طرف سے ایسی روایات لاتا جو ان کی احادیث میں سے نہیں ہوتی تھیں۔ عبدالحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ضعیف الحدیث ہے" علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں "مستضعف، متکلم فیہ، ضعیف اور فیہ مقال ہے" علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "یحییٰ قطان رحمہ اللہ، ابن مہدی رحمہ اللہ، ابن معین رحمہ اللہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کو ترک کیا ہے" اور امام نووی رحمہ اللہ "تہذیب الاسماء" میں فرماتے ہیں "علماء کا اس کے ضعف پر اتفاق ہے" مزید تفصیلی حالات کے لئے حاشیہ (30) کے تحت درج کی گئی کتب کا مطالعہ مفید ہو گا۔
لہذا یہ حدیث بھی اسناد میں مسلسل ضعفاء کی موجودگی کے باعث "ضعیف" قرار پائے گی۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (31)

~~~~

تیسری حدیث: 
اس سلسلہ کی تیسری زبان زد حدیث یہ ہے

من ضحي طيبة نفسه محتسبا لاضحيته كانت له حجابا من النار

"جو شخص اس طرح قربانی کرے کہ اس کا دل خوش ہو اور وہ اپنی قربانی میں ثواب کی نیت رکھتا ہو تو وہ قربانی اس کے لئے دوزخ سے آڑ ہو جائے گی" 

اس حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے "معجم الکبیر" میں حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے "جامع الصغیر" میں وارد کر کے گویا اس کی صحت کی طرف اشارہ فرمایا ہے لیکن اس کے متعلق علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس کی سند میں سلیمان بن عمرو نخعی ہے جو کذاب ہے" (32)
علامہ مناوی رحمہ اللہ نے "جامع الصغیر" کی شرح میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا قول نقل کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ کا رد فرمایا ہے اور لکھتے ہیں کہ "مصنف کو چاہیے تھا کہ اس حدیث کو کتاب سے حذف کر دیں"
اس حدیث کے مجروح راوی سلیمان بن عمرو النخعی ابوداؤد الکوفی کو امام نسائی رحمہ اللہ نے "متروک الحدیث" بتایا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "کذاب" ہے۔ یحییٰ رحمہ اللہ کا قول ہے "وہ ان راویوں میں سے ہے جو کذاب اور حدیث گھڑنے کے لئے مشہور ہیں۔" یزید بن ہارون فرماتے ہیں "کسی شخص کو اس سے حدیث کی روایت کرنا جائز نہیں ہے" امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں "وہ کذب کے لئے معروف ہے" امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے "متروک" بتایا ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں "بظاہر صالح شخص تھا مگر جھوٹی حدیثیں گھڑا کرتا تھا، قدری بھی تھا اس کی حدیث کا لکھنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کا ذکر اِلا یہ کہ علی جہتِ الاعتبار ہو" علامہ زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس کی تکذیب کی ہے" امام ذہبی فرماتے ہیں "کذاب ہے، امام بخاری کا قول ہے کہ متروک ہے۔ قتیبہ رحمہ اللہ اور اسحاق رحمہ اللہ نے اس پر کذب کے ساتھ جرح کی ہے" ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس بات پر اجماع ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا" مزید تفصیلات کے لئے حاشیہ (33) میں درج کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔
پس یہ حدیث سلیمان بن عمرو النخعی کی موجودگی کے باعث "موضوع" قرار پائے گی۔ شیخ الحدیث علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ" میں اسے "موضوع" قرار دیا ہے (34) مگر علوم حدیث سے عدم ممارست کے باعث مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے "حیوۃ المسلمین" (35) میں اور مولانا طارق مدنی صاحب نے اپنے مضمون "قربانی کی فضیلت" میں اس موضوع حدیث سے احتجاج کیا ہے۔ فانا للہ

~~~~

چوتھی حدیث: 
فضائل قربانی کے بارے میں چوتھی حدیث یوں بیان کی جاتی ہے۔ 

ايها الناس ضحوا واحتسبوا بدمائها فان الدم وان وقع في الارض فانه يقع في حرز الله عزوجل 

"اے لوگو قربانی کرو اور اس کے خون سے ثواب کی امید رکھو کیونکہ جب خون زمین پر گرتا ہے ہے تو وہ حرز اللہ عزوجل میں پہنچ جاتا ہے" 

اس حدیث کو بھی امام طبرانی رحمہ اللہ نے اپنی "معجم الاوسط" میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے لیکن امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس کی سند میں عمرو بن الحصین العقیلی موجود ہے جو کہ متروک الحدیث ہے" (36)
اس عمرو بن الحصین العقیلی الکلابی کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "طبقہ دہم کا متروک راوی ہے۔" امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے "متروک"، ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے "ذاہب الحدیث، لیس بشئی" ابو زرعہ رحمہ اللہ نے "واہی الحدیث"، ابن عدی رحمہ اللہ نے "متروک الحدیث" اور ازدی رحمہ اللہ نے "بہت زیادہ ضعیف" قرار دیا ہے۔ تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (37) میں مذکور کتب ملاحظہ فرمائیں۔ 
عمرو بن الحصین راوی کی موجودگی کے باعث یہ حدیث "موضوع" قرار پائی۔ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے بھی اس حدیث کو "موضوع" یعنی مَن گھڑت قرار دیا ہے۔ (38)

~~~~

پانچویں حدیث: 
اس باب کی پانچویں حدیث یہ ہے 

ما انفقت الورق في شئ احب الي الله من نحير ينحر في يوم عيد 

"قربانی کے دن کہیں روپیہ پیسہ خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی میں خرچ کرنے سے افضل نہیں ہے" 

اس حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے "معجم الکبیر" میں (39) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اپنی "سنن" (40) اور اپنے "خلاصہ فوائد" (41) میں، قاسم الھمدانی نے اپنی کتاب "الفوائد" میں (42) اور ابن ابی شریح نے اپنی "جزء بیی" (43) میں بطریق ابراہیم بن یزید الخوزی عن عمرو بن دینار عن طاؤس عن ابن عباس مرفوعا بہ روایت کیا ہے۔
ان مخرجین حدیث کے علاوہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "منتقی الاخبار" (44) میں بحوالہ دارقطنی رحمہ اللہ علامہ متقی رحمہ اللہ نے "کنز العمال" (45) میں، علامہ منذری رحمہ اللہ نے "ترغیب" (46) میں اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے "جامع الصغیر" (47) میں بحوالہ طبرانی و سنن بیہقی رحمہ اللہ وارد کر کے گویا اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیہ" میں اسے وارد کرنے کے بعد فرمایا ہے
"یہ حدیث صحیح نہیں ہے امام احمد رحمہ اللہ اور امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابراہیم بن یزید متروک ہے اور یحییٰ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "دھیلہ کے برابر بھی نہیں ہے۔" (48)
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کے علاوہ محدثین میں سے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ بھی "مجمع الزوائد و منبع الفوائد" میں فرماتے ہیں (49)
"اس کی سند میں ابراہیم بن یزید الخوزی ہے جو کہ ضعیف ہے"
اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المجروحین" (50) میں اسے ابراہیم بن یزید الخوزی کے ترجمہ میں وارد کیا ہے لیکن ابن حبان رحمہ اللہ کی روایت میں " مِن نحير يُنحر " کے بجائے " مِن نحرة تنحر " کے الفاظ وارد ہیں۔
اس ابراہیم بن یزید الخوزی المکی کے متعلق امام احمد، نسائی، علی بن جنید، اور ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ "متروک الحدیث" ہے۔ امام یحییٰ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "کچھ بھی نہیں ہے" آں رحمہ اللہ کا ہی ایک دوسرا قول ہے کہ "ثقہ نہیں ہے" امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے "منکر الحدیث بتایا ہے" امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے "سکتوا عنہ" امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے بارہ میں بعض اہل علم نے حافظ کی نسبت سے کلام کیا ہے۔ مگر ابن عدی فرماتے ہیں "یکتب حدیثہ" امام ابن حبان فرماتے ہیں "اس نے بہت سی منکرات اور اوہام غلیظہ روایت کی ہیں" برقی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "وہ کذب کے لئے مہتم ہے" تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (51) میں درج کتب ملاحظہ فرمائیں۔
پس یہ حدیث ابراہیم بن یزید الخوزی کی موجودگی کے باعث بہت زیادہ ضعیف قرار پائے گی۔ علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے اس کو بجا طور پر "ضعیف جدا" قرار دیا ہے۔ (52)  

مگر افسوس کہ جامعہ ملک سعود الریاض سے وابستہ ہمارے ایک فاضل دوست جناب محمد اقبال کیلانی صاحب نے ادارۃ العامہ لشئون المصاحف و مراقبہ الکتب (رئاسۃ ادارۃ البحوث العلمیہ والافتاء والدعوۃ والارشاد، الریاض) سے منظور شدہ اپنی "کتاب الصیام" میں اس حدیث سے ایک مسئلہ یوں تخریج فرمایا ہے
"مسئلہ 178: قربانی کا پیسہ کسی دوسری جگہ خرچ کرنے سے نہ قربانی کا ثواب ملتا ہے نہ اس کا بدل بن سکتا ہے" (53) ۔۔۔۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون

~~~~

چھٹی حدیث: 
اس باب کی چھٹی حدیث حسب ذیل ہے 

يا فاطمه قومي الي اضحيتك فاشهديها فانه يغفرلك عند اول قطرة من دمها كل ذنب عملتيه وقولي ﴿إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾ (الآية) قال عمران: قلت يا رسول الله هذا لك ولاهل بيتك خاصة ام للمسلمين عامة؟ قال لا بل للمسلمين عامة 

"اے فاطمہ! اٹھ کر اپنی قربانی کے پاس ہو جاؤ کیونکہ تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس قربانی کے خون کا پہلا قطرہ گرنے پر ہی تیرے تمام گناہوں کی مغفرت ہو جائے گی۔ اس وقت یہ دعا پڑھو ﴿إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢﴾ لا شَريكَ لَهُ وَبِذ‌ٰلِكَ أُمِرتُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣﴾ (54) حضرت عمران بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوال کیا یا رسول اللہ! کیا یہ فضیلت خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے لئے ہے یا عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ اس میں عام مسلمان بھی شامل ہیں" 

اس حدیث کی تخریج امام حاکم رحمہ اللہ نے "مستدرک علی الصحیحین" (55) میں، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی "سنن الکبریٰ" میں اور طبرانی رحمہ اللہ نے "المعجم الکبیر" و "المعجم الاوسط" میں بطریق نضر بن اسماعیل البجلی ثنا ابو حمزہ الشمالی عن سعید بن جبیر عن عمران بن الحصین مرفوعا قابل بہ کی ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی "جامع" میں اس حدیث کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے "وفی الباب عن عمران بن الحصین" (56) اس حدیث کو اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے بھی اپنی "سند" میں بطریق یحییٰ بن آدم و ابوبکر بن عیاش، عن ثابت عن ابی اسحاق عن عمران بن الحصین فذکرہ روایت کیا ہے۔ جیسا کہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے "نصب الرایہ" (57) میں اور علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے "تحفۃ الاحوذی" (58) میں بیان کیا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ صحیح الاسناد ہے" لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ "تلخیص المستدرک" میں امام حاکم رحمہ اللہ کا رد فرماتے ہوئے لکھتے ہیں "قلت ابو حمزہ الشمالی ضعیف جدا" و ابن اسماعیل لیس بذالک" امام بیہقی رحمہ اللہ فقط یہ فرماتے ہیں کہ "فی اسنادہ مقال" اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا قول ہے: "اس کی سند میں ابو حمزہ الشمالی ہے اور وہ ضعیف ہے" (59)
ابو حمزہ الشمالی جو ثابت بن ابی صفیہ ہے کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں "ضعیف رافضی ہے" امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ضعیف الحدیث اور کچھ بھی نہیں ہے" یحییٰ رحمہ اللہ کا بھی قول ہے کہ "کچھ نہیں ہے کہ "کچھ نہیں ہے" نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں "ثقہ نہیں ہے"۔ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "واھی الحدیث ہے" علی بن الجنید رحمہ اللہ نے اسے "متروک" اور دارقطنی رحمہ اللہ نے "ضعیف" قرار دیا ہے۔ ابو حاتم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "لین الحدیث ہے" اور امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اخبار میں کثیر الوہم ہے لہذا اگر روایت میں منفرد ہو تو حد احتجاج سے خارج ہے، تشیع میں غلو بھی کرتا ہے" تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (60) کے تحت درج شدہ کتب ملاحظہ فرمائیں۔ 
پس یہ حدیث "منکر" قرار پائی جیسا کہ علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ (61) میں بیان فرمایا ہے

امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی ایک شاہد روایت اپنی "مستدرک علی الصحیحین" میں بطریق عمرو بن قیس عن عطیہ عن ابی سعید الخدری مرفوعا اس طرح تخریج فرمائی ہے: 
يا فاطمة قومي الي اضحيتك فاشهديها فان لك باول قطرة تقطر من دمها ان يغفرلك ما سلف من ذنوبك فقالت فاطمة يا رسول الله هذا لنا اهل البيت خاصة او لنا و للمسلمين عامة؟ قال لا بل لنا وللمسلمين عامة (62)

اس حدیث کو امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی "مسند" میں اور ابو الشیخ ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الضحایا" میں بھی روایت کیا ہے جیسا کہ "ترغیب" (63) میں مذکور ہے۔ امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس باب میں ابو سعید سے مروی اس سے بہتر کسی اور طریق کا ہمیں علم نہیں ہے۔ عمرو بن قیس کوفہ کے فضلاء میں سے تھے کہ جن کی حدیث لکھی جاتی ہے" (64) امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی اس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے مگر علامہ ذہبی "تلخیص المستدرک" میں فرماتے ہیں "میں کہتا ہوں کہ اس میں عطیہ واہ ہے" علامہ ہیثمی رحمہ اللہ بھی "مجمع الزوائد و منبع الفوائد" میں بزار رحمہ اللہ کی روایت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں "اس میں عطیہ بن قیس رحمہ اللہ ہے جس پر بکثرت کلام کیا گیا ہے لیکن بعض نے اس کی توثیق بھی کی ہے" (65)
اس عطیہ بن سعد بن جنادہ العونی ابو الحسن الکونی کی ثوری رحمہ اللہ، ہشیم رحمہ اللہ، یحییٰ رحمہ اللہ، احمد رحمہ اللہ، رازی رحمہ اللہ، اور نسائی رحمہ اللہ نے تضعیف فرمائی ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ "تقریب" میں فرماتے ہیں "صدوق مگر بکثرت خطا کرنے والا اور مدلس شیعہ تھا" "فتح الباری" میں فرماتے ہیں "اس میں ضعف ہے" اور "تعریف اہل التقدیس" میں فرماتے ہیں "معروف تابعی، ضعیف الحفظ، اور قبیح تدلیس کے لئے مشہور ہے" امام عجلی فرماتے ہیں "کوفی ثقہ تابعی ہے لیکن قوی نہیں ہے" ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے احادیث سنیں پھر جب ابو سعید رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو کلبی کی مجالس میں بیٹھنا اختیار کیا۔ اور جب یہ کہنا چاہتا کہ کلبی نے کہا تو ابو سعید کی کنیت کے ساتھ کہتا جس سے لوگوں کو یہ گمان ہوتا کہ اس کی مراد الخدری رضی اللہ عنہ سے ہے حالانکہ اس کی مراد کلبی سے ہوتی تھی۔ پس اس سے احتجاج جائز نہیں ہے اور نہ اس کی حدیث کا لکھنا اِلا یہ کہ علی جہت التعجب ہو" امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "مشہور تابعی لیکن ضعیف ہے"۔ ابو حاتم رحمہ اللہ کا قول ہے "اس کی حدیث لکھی جاتی ہے مگر وہ ضعیف ہے" سالم المراوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "عطیہ تشیع کیا کرتا تھا" ابن معین رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "صالح تھا" ابن المدینی رحمہ اللہ نے یحییٰ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ "عطیہ، ابو ہارون اور بشر بن حرب میرے نزدیک ہم پلہ ہیں" مزید تفصیلی حالات کے لئے حاشیہ (66) میں درج کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔ 
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے کتاب "العلل" میں اپنے والد رحمہ اللہ سے نقل فرمایا ہے کہ "یہ حدیث منکر ہے" (67) محدث شہیر عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے "تحفۃ الاحوذی" میں ابو حاتم رحمہ اللہ کا یہ قول نقل فرمایا ہے۔ (68)
امام حاکم رحمہ اللہ نے "مستدرک علی الصحیحین" (69) میں، امام بیہقی رحمہ اللہ نے "سنن الکبریٰ" میں، ابو قاسم اصبہانی رحمہ اللہ نے "ترغیب والترہیب" میں اور ابو الفتح سلیم بن ایوب الفقیہ الشافعی رحمہ اللہ نے کتاب "الترغیب" میں اس حدیث کو بطریق مسلم بن ابراہیم ثنا سعید بن زید ثنا عمرو بن خالد مولی بنی ہاشم عن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب عن ابیہ عن جدہ عن علی بن ابی طالب مرفوعا بھی روایت کیا ہے اس حدیث کے متعلق "ترغیب" میں مذکور ہے "ہمارے بعض مشائخ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی تحسین فرمائی ہے۔ علامہ متقی رحمہ اللہ نے اس کو "کنز العمال" (70) میں وارد کیا ہے علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے "نصب الرایہ" میں (71) اس حدیث پر سکوت اختیار فرمایا ہے۔ مگر ابو الفتح رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس میں سعید بن زید اخو حماد بن زید ہے" اور شارح ترمذی رحمہ اللہ علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس کی سند میں عمرو بن خالد والواسطی ہے اور وہ متروک ہے جیسا کہ تلخیص میں مذکور ہے" (72)
سعید بن زید بن درہم الازدی الجہنی اخو حماد بن زید کی یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ نے بہت زیادہ تضعیف کی ہے۔ سعدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "ائمہ حدیث اس کی احادیث کی تضعیف کرتے تھے وہ حجت نہیں ہے" نسائی رحمہ اللہ کا قول ہے "قوی نہیں ہے" امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس میں کوئی حرج نہیں ہے" ابن معین رحمہ اللہ اور عجلی رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے۔ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "میرے نزدیک وہ ان رواۃ میں سے ہے جن کے ساتھ صدق منسوب ہے" امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ابن معین رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے مگر قطان رحمہ اللہ اور دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کی تضعیف کی ہے" ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں "حافظ صدوق تھا اور ان روایانِ حدیث میں سے تھا جو اخبار میں خطا اور آثار میں وہم کرتے ہیں حتی کہ اگر روایت میں منفرد ہوں تو ان سے احتجاج نہیں کیا جاتا" اور امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "صدوق ہے مگر اس کے پاس اوہام ہیں" اور "فتح الباری" میں فرماتے ہیں "صدوق ہے، بعض ائمہ نے اس کے حافظہ پر کلام کیا ہے۔ صحیح بخاری میں سوائے ایک مقام کے اور وہ بھی معلقا اس سے کوئی روایت نہیں ہے" تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (73) کے تحت مذکورہ کتب کا مطالعہ مفید ہو گا۔
اور عمرو بن خالد الواسطی القرشی الکوفی مؤطا بنی ہاشم کی امام احمد رحمہ اللہ و یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور دارقطنی رحمہ اللہ نے تکذیب فرمائی ہے۔ وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ہمارے پڑوس میں رہتا تھا، حدیث گھڑا کرتا تھا جب اس کے خلاف فتنہ اٹھ کھڑا ہوا تو وہ اوسط چلا گیا" اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ اور ابو زرعہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "حدیث گھڑا کرتا تھا" نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "متروک الحدیث ہے" امام ذہبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں "عباس رحمہ اللہ نے یحییٰ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ کذاب، غیر ثقہ تھا"۔ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں "یہ ان رواۃ میں سے تھا جو اثبات کی طرف سے موضوعات روایت کرتے ہیں" اور ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "طبقہ ہشتم کا متروک راوی ہے" وکیع رحمہ اللہ نے اس پر کذب بیانی کا الزام عائد کیا ہے" تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (74) کے تحت درج کتب ملاحظہ فرمائیں۔ 

مقام صد افسوس ہے کہ اس "موضوع" حدیث کو مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے "حیوۃ المسلمین" (75) میں، مولانا طارق محمود مدنی صاحب نے اپنے مضمون "قربانی کی فضیلت" میں، مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب نے "الاضحیۃ واجبۃ" اور "قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ قربانی" میں، مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نے "قربانی کے احکام و مسائل" میں اور ڈاکٹر سید محمود اللہ نور صاحب نے "ذوالحجہ کے عشرہ اول میں معجزات انبیاء کرام علیہم السلام" میں بطور دلیل پیش کیا ہے۔

~~~~

نویں حدیث
اس باب کی نویں حدیث جو زبان زد ہر خاص و عام ہے یوں بیان کی جاتی ہے 

قال اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم يا رسول الله ما هذه الاضاحي قال سنة ابيكم ابرهيم عليه الصلوة والسلام قالوا فما لنا فيها يا رسول الله قال بكل شعرة حسنة قال فالصوف يا رسول الله قال بكل شعرة من الصوف حسنة 

"اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت ہے لوگوں نے پوچھا ان کا ہمارے لیے کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے انہوں نے پوچھا اور اون؟ فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلہ بھی ایک نیکی ہے" 

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی "مسند" میں، ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی "سنن" (76) میں، ابن عدی رحمہ اللہ نے "کامل فی الضعفاء" (77) میں، حاکم رحمہ اللہ نے "مستدرک علی الصحیحین" (78) میں اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے "سنن الکبریٰ" (79) میں بطریق سلام بن مسکین عن عائذ اللہ عن ابی داؤد عن زید بن ارقم قال قال اصحاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم بہ تخریج فرمایا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی "جامع" میں اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ وارد کیا ہے "ويروي عن رسول الله صلي الله عليه وسلم انه قال في الاضحيته لصاحبها بكل شعرة حسنه ويروي بقرونها" (80)
اگرچہ اس روایت کو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "منتقی الاخبار" (81) میں، علامہ متقی رحمہ اللہ نے "کنز العمال" (82) میں وارد کیا ہے اور کوئی کلام نہیں کیا لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ نے البتہ اس کو معلقا بدون اسناد ذکر فرما کر گویا اس کی تضعیف فرمائی ہے حالانکہ امام حاکم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "یہ صحیح الاسناد ہے" امام ذہبی رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ پر تعقب کرتے ہوئے "تلخیص المستدرک" میں تحریر فرماتے ہیں "میں کہتا ہوں کہ عائذ اللہ کو ابو حاتم رحمہ اللہ نے منکر الحدیث بنایا ہے" علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس کی سند میں ایک راوی عائذ اللہ المجاشعی ہے جس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے " لا يصح حديثه " مگر ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے جیسا کہ خلاصہ میں مذکور ہے۔ (83) بوصیری رحمہ اللہ "الزوائد" میں فرماتے ہیں "اس کی اسناد میں ابوداؤد ہے جس کا نام نفیع بن الحارث ہے اور وہ متروک اور حدیث وضع کرنے کے لئے مہتم ہے" اور حافظ منذری رحمہ اللہ "ترغیب" میں فرماتے ہیں "بلکہ یہ روایت واہی ہے۔ عائذ اللہ جو المجاشعی ہے اور ابوداؤد جو نفیع بن الحارث الاعمی ہے دونوں ساقط ہیں" (84) امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عائذ اللہ المجاشعی کے ترجمہ میں وارد کیا ہے اور فرماتے ہیں " لا يصح حديثه " امام بخاری رحمہ اللہ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ امام عقیلی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی "ضعفاء الکبیر" (85) میں عائذ اللہ المجاشعی کے ترجمہ کے تحت وارد کیا ہے جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے "کتاب المجروحین" میں (86) نفیع بن الحارث کے ترجمہ میں، امام ذہبی نے "میزان الاعتدال فی نقد الرجال" میں (87) عائذ اللہ اور نفیع بن الحارث دونوں راویوں کے ترجموں میں وارد کیا ہے۔ محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ" (88) میں اس کو "موضوع" قرار دیا ہے۔

مگر افسوس کہ اس حدیث کو مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے "حیوۃ المسلمین" میں (89) مولانا منظور احمد نعمانی صاحب نے اپنے مضمون "عید الاضحیٰ ارشادار نبوی کی روشنی میں" میں، مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نے "قربانی کے احکام و مسائل" میں، مولانا طارق محمود مدنی صاحب نے "قربانی کی فضیلت" میں، مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب نے "الاضحية واجبة" اور "قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ قربانی" میں، مولانا عبدالرشید ارشد صاحب نے اپنے مضمون "قربانی کی حقیقت رضائے الٰہی کا حصول اور سنت ابراہیمی کا احیاء ہے" کے تحت اور جامعہ ملک سعود الریاض سے وابستہ ہمارے ایک فاضل دوست جناب محمد اقبال کیلانی صاحب نے ادارہ العامتہ لشؤن المصاحب و مراقبۃ الکتب (رئاستہ ادارۃ البحوث العلمیۃ والافتاء والدعوۃ والارشاد بالریاض) سے منظور شدہ اپنی "کتاب الصیام" (90) میں، "مسئلہ نمبر 17 قربانی کی فضیلت" کے زیر عنوان بطور دلیل نقل کیا ہے۔ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
زیر مطالعہ حدیث نیز اس کے رواۃ پر تفصیلی بحث کے لئے راقم کا زیر نظر مضمون کے آخر میں طبع شدہ مضمون "کیا قربانی کے جانوروں کے ہر بال کے عوض ایک نیکی کا ثواب ہے؟" ملاحظہ فرمائیں۔

~~~~

دسویں حدیث: 
اس باب کی دسویں حدیث وہ ہے جس میں مروی ہے کہ 

اپنی قربانیوں کے جانوروں کو خوب کھلا پلا کر فربہ کرو کیونکہ وہ پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گی۔ 

بعض روایات میں ان قربانیوں کو جنت کی سواریاں بھی بیان کیا گیا ہے۔ عام طور پر بیان کی جانے والی روایات کے الفاظ اس طرح ہیں 

استفرهوا ضحايكم فانها مطاياكم علي الصراط 

اس حدیث کو ضیاء مقدسی رحمہ اللہ نے "منتقی من مسموعاتہ بمرو" (91) میں اور دیلمی رحمہ اللہ نے "مسند الفردوس" میں بطریق ابن المبارک عن یحییٰ بن عبیداللہ عن ابیہ قال سمعت ابا ہریرۃ فذکرہ مرفوعا بہ روایت کیا ہے لیکن اس سند کا راوی یحییٰ بن عبیداللہ بن عبداللہ بن موہب المدنی التیمی بقول امام نسائی رحمہ اللہ و دارقطنی رحمہ اللہ ضعیف ہے۔ ابن حبان فرماتے ہیں "اپنے والد سے بے اصل چیزوں کی روایت کرتا ہے اس کا باپ ثقہ ہے لیکن یہ ساقط الاحتجاج ہے" قطان رحمہ اللہ نے اسے "ثقہ" بتایا ہے، شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں "میں نے اس کی احادیث کو ترک کر دیا ہے" ابن معین رحمہ اللہ کا قول ہے "کچھ بھی نہیں ہے" ابن مثنی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ "اس سے یحییٰ القطان رحمہ اللہ نے روایت کی تھی پھر اسے ترک کر دیا تھا" امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس کی احادیث مناکیر ہوتی ہیں" ایک مرتبہ آں رحمہ اللہ نے فرمایا "ثقہ نہیں ہے" ابن عیینہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "ضعیف ہے" علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "طبقہ ششم کا متروک راوی ہے"۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کو "فاحش بتایا ہے اور حدیث گھڑنے کے لئے مہتم قرار دیا ہے" ابو حاتم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ "بہت زیادہ ضعیف الحدیث و منکر الحدیث ہے" امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اسے "متروک الحدیث" قرار دیا ہے۔ تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ (92) ملاحظہ فرمائیں۔
اس مجروح راوی یحییٰ کا والد عبیداللہ بن عبداللہ بن موہب المدنی بھی عند المحدثین "مجہول" ہے اگرچہ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسے "مقبول" اور علامہ عجلی رحمہ اللہ و ابن حبان رحمہ اللہ نے "ثقہ" بتایا ہے مگر عجلی رحمہ اللہ و ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق عند المحققین بسبب تساہل مقبول و مؤثر نہیں ہوا کرتی۔ عبیداللہ بن عبداللہ کے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ، ہیثمی رحمہ اللہ، اور جوزجانی رحمہ اللہ متفقہ طور پر فرماتے ہیں: "لا یعرف" مزید تفصیلات کے لئے حاشیہ (93) میں درج کتب ملاحظہ فرمائیں۔
اس حدیث کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس کی تخریج صاحب مسند الفردوس نے یحییٰ بن عبیداللہ بن موہب کے طریق سے کی ہے اور یحییٰ بہت زیادہ ضعیف ہے" (94) علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "اس کو دیلمی نے ابن المبارک میں یحییٰ بن عبیداللہ عن ابیہ عن ابی ہریرۃ مرفوعا مسندا روایت کیا ہے اور یحییٰ بہت زیادہ ضعیف ہے۔ (پھر حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا قول نقل فرماتے ہیں جو ذرا آگے پیش کیا جائے گا)" (95)
علامہ شیبانی اثری رحمہ اللہ فرماتے ہیں "مختلف الفاظ کے ساتھ متعدد طرق سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا قول ہے "یہ حدیث غیر معروف ہے اور ہمارے علم کے مطابق اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔" (96) علامہ عجلونی جراحی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں "دیلمی رحمہ اللہ نے اس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ ضعیف سند کے ساتھ مرفوعا روایت کیا ہے" (97) علامہ محمد درویش حوت البیروتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "یہ حدیث غیر ثابت ہے جیسا کہ ابن الصلاح رحمہ اللہ وغیرہ نے بیان کیا ہے اسی طرح "انها مطاياكم في الجنه" والی حدیث بھی غیر ثابت ہے اور فضیلتِ و صفِ اضحیہ کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے" (98) علامہ سمہودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اس کو بے اصل بتایا ہے"۔ بعض دوسرے محققین فرماتے ہیں ضحایا (کی فضیلت) کے متعلق کوئی صحیح چیز وارد نہیں ہے" (99) علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اسے "الدرر المنشرہ" (100) اور "جامع الصغیر" (101) میں بحوالہ دیلمی رحمہ اللہ وارد کیا ہے اور فرماتے ہیں ہیں کہ "یحییٰ ضعیف ہے" مگر اس کے باوجود آں رحمہ اللہ ہی نے اس حدیث کو اپنی دوسری کتاب "الجامع الکبیر" (102) میں بحوالہ مسند دیلمی رحمہ اللہ "وامالی" للقاضی عبدالجبار عن ابی ہریرۃ رحمہ اللہ توقیرا وارد کیا ہے۔ علامہ متقی رحمہ اللہ نے "کنز العمال" میں اور مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے "حیوۃ المسلمین" (103) میں اس کو بطور دلیل ذکر کیا ہے، فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ واضح رہے کہ علامہ مناوی رحمہ اللہ نے "فیض القدیر شرح الجامع الصغیر" (104) میں اس کی تضعیف فرمائی ہے اور محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے "ضعیف الجامع الصغیر" (105) اور "سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ" (106) میں اس کو "بہت زیادہ ضعیف" قرار دیا ہے۔ 
اسی مضمون کی ایک اور حدیث ان الفاظ کے ساتھ بھی بیان کی جاتی ہے " عظموا ضحاياكم فانها علي الصراط مطاياكم " مگر اس کے متعلق علامہ سخاوی رحمہ اللہ اور اسماعیل عجلونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "امام الحرمین الجوینی رحمہ اللہ کی النہایہ میں، غزالی رحمہ اللہ کی الوسیط اور الوجیز میں نیز رافعی رحمہ اللہ کی العزیز (جو شوافع کے نزدیک شرح الکبیر ہے) میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے۔ عظموا ضحاياكم فانها علي الصراط مطاياكم امام الحرمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کرنے والوں کے لئے قربانی کے جانور خود سواریاں بن جائیں گے۔ بعض دوسرے لوگوں کا قول ہے کہ ان قربانیوں کی برکت سے پل صراط پر سے بہ آسانی گزرنا ممکن ہو گا گویا کہ وہ سواریاں بن جائیں گی۔ لیکن علامہ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ حدیث غیر معروف اور ہمارے علم کے مطابق غیر ثابت ہے۔"(107)
علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ" میں فرماتے ہیں "یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بے اصل (108) ہے۔ 

مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے "حیوۃ المسلمین" میں، (109) اس حدیث پر اعتماد کرتے ہوئے تقریبا وہی معانی بیان کیے ہیں جو اوپر ذکر ہو چکے ہیں ۔۔۔ فانا للہ ونا الیہ راجعون 

اور ابن ملقن رحمہ اللہ کا قول ہے "میں کہتا ہوں کہ صاحب الفردوس نے اس کو "غطموا" کے بجائے "استفرھوا" کے ساتھ متشدا روایت کیا ہے لہذا مروی ہے: 
ضحوا بالثمينة القوية السمينة (یعنی قیمتی، طاقتور اور فربہ جانوروں کی قربانیاں کیا کرو)۔" (110)

لیکن محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ "ابن ملقن رحمہ اللہ کی یہ حدیث سندا بہت زیادہ ضعیف ہے۔" (111)

افسوس کہ مشہور حنفی محقق ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق شرح مشکوۃ میں دیگر فضائل قربانی کے ساتھ قربانیوں کے پل صراط پر سواریاں ہونے والی مذکورہ بالا روایت پر بھی اعتماد کیا ہے چنانچہ تحریر فرماتے ہیں 

افضل العبادات يوم العيد اراقة دم القربات وانه ياتي يوم القيمة كما كان في الدنيا من غير نقصان شيئی ليكون بكل عضو سنه اجر و تصير مركبه علي الصراط وكل يوم مختص بعبادة وخص يوم النحر بعبادة فعلها ابراهيم عليه الصلوة والسلام من التضحية والتكبير ولو كان شيئی افضل من ذبح الغنم في فداء الانسان لما فدي اسماعيل عليه السلام بذبح الغنم (112) 

"عید کے روز تمام عبادات سے افضل (عبادت) خون بہانا ہے اور وہ (قربانی) بغیر کسی نقصان کے قیامت کے دن لائی جائے گی جس طرح کہ وہ دنیا میں تھی اور اس کے ہر عضو کے بدلہ اجر دیا جائے گا اور پل صراط پر اس کے لیے سواری کا کام دے گی۔ ہر دن عبادت کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ قربانی کا دن بھی عبادت کے لئے مخصوص ہے اس دن کو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے قربانی اور تکبیر کے ساتھ عبادت میں گزارا۔ اگر (اس دن) بکری کی قربانی سے افضل کوئی چیز ہوتی تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلہ میں بکری ذبح نہ کی جاتی" 

واضح رہے کہ بعض روایات میں اضافہ کرنے والوں کے لئے ان قربانیوں کا پل صراط کے بجائے جنت میں سواریاں ہونا بھی مذکور ہے " فانها مطاياكم في الجنة " جیسا کہ اوپر ضمنا بیان کیا جا چکا ہے مگر علامہ سخاوی و شیبانی و حوت بیروتی وغیرہم رحمہم اللہ نے اس کو بھی "غیر معروف و غیر ثابت" بتایا ہے۔ (113)

حاصل کلام 
قربانی کی تاکید و اہمیت و مسنونیت اپنی جگہ مسلم ہے 

مگر افسوس کہ اس کی فضیلت میں بیان کی جانے والی کوئی ایک حدیث بھی صحت کے درجہ کو نہیں پہنچتی جو بھی روایات اس بارے میں وارد ہیں ان میں سے کچھ تو بہت زیادہ ضعیف ہیں، کچھ منکر، کچھ بے اصل اور کچھ موضوع۔ اس باب کی اصح یعنی بہتر سے بہتر روایات بھی ضعیف راویوں سے خالی نہیں ہے۔ اسی باعث "جامع ترمذی" کے مشہور شارح علامہ ابن العربی رحمہ اللہ یہ فرمانے پر مجبور ہوئے کہ "اضحیہ کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے۔" (114) مگر محدث شہیر دادا مرحوم (علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ) نے علامہ ابن العربی رحمہ اللہ کے اس قول کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے "امر واقعہ یہی ہے جیسا کہ ابن العربی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے لیکن اس باب کی (مذکورہ بالا نویں) حدیث سے ظاہر ہے کہ وہ حسن درجہ کی ہے صحیح نہیں ہے، واللہ اعلم۔" (115) 

ایسی ہی بہت سی ناقابل احتجاج روایات میں سے ایک زبان زد روایت وہ بھی ہے جس میں قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی کے اجر و ثواب کا ملنا مذکور ہے۔ 

"کیا قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی کا ثواب ہے؟" 
مولانا منظور احمد نعمانی صاحب اپنے مضمون میں فرماتے ہیں 
"حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان قربانیوں کی کیا حقیقت اور کیا تاریخ ہے؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے (روحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (یعنی سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم دیا گیا اور وہ کیا کرتے تھے، ان کی اس سنت اور قربانی کے اس عمل کی پیروی کا حکم مجھ کو اور میری امت کو بھی دیا گیا ہے) ان صحابہ نے عرض کیا پھر ہمارے لئے یا رسول اللہ ان قربانیوں میں کیا اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی، انہوں نے عرض کیا تو کیا اون کا بھی یا رسول اللہ یہی حساب ہے؟ (اس سوال کا مطلب تھا کہ بھیڑ، دنبہ، مینڈھا، اونٹ، جیسے جانور جن کی کھال پر گائے یا بکری کی طرح کے بال نہیں ہوتے بلکہ اون ہوتا ہے اور یقینا ان میں سے ایک جانور کی کھال پر لاکھوں یا کروڑوں بال ہوتے ہیں تو کیا اون والے جانوروں کی قربانی کا ثواب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی کی شرح سے ملے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اون یعنی اون والے جانور کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح اور اسی حساب سے ملے گا کہ اس کے بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی (مسند احمد، سنن ابن ماجہ)" 

اور مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب فرماتے ہیں
"قربانی کی بڑی فضیلتیں ہیں۔ مسند احمد کی روایت میں ایک حدیث پاک ہے۔ 

زید بن ارقم کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابی نے پوچھا ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ اون کے متعلق فرمایا اس کے ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔" 

اور جناب طارق محمود مدنی صاحب اپنے مضمون "قربانی کی فضیلت" میں فرماتے ہیں 

"زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانی کیا چیز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے (نسبی یا روحانی) باپ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم کو اس میں کیا ملتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی انہوں نے عرض کیا کہ اگر اون والا جانور (یعنی بھیڑ یا دنبہ) ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اون کے بدلے میں بھی ایک نیکی۔" (حاکم) 

اور جناب سعید احمد جلال پوری صاحب "قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ قربانی" کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں
"آپ نے فرمایا کہ (قربانی کے جانور کے) ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے پھر انہوں نے عرض کیا اون کا بھی یہی حساب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اون والے جانور کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح سے ملے گا کہ ہر بال کے عوض ایک نیکی" (کنز العمال صفحہ 239 ج نمبر 5) 

اور مولانا عبدالرشید ارشد صاحب "قربانی کی حقیقت رضائے الٰہی کا حصول اور سنت ابراہیمی کا احیاء ہے" کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں 

" ۔۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ترجمہ ۔۔۔ اے اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے والد گرامی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے تو صحابہ نے پوچھا کہ ان قربانیوں سے کیا حاصل ہو گا تو آپ نے فرمایا کہ ایک ایک بال کے بدلے نیکی ملے گی۔" 

یہ تھے اس بارے میں شائع ہونے والی علماء کرام کی حالیہ تحریروں کے چند اقتباسات، اب اس بارے میں وارد ہونے والی اصل حدیث ملاحظہ فرمائیں 

قال اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم: يا رسول الله ما هذه الاضاحي؟ قال سنة ابيكم ابراهيم عليه الصلوة والسلام قالوا فما لنا فيها يا رسول الله؟ قال بكل شعرة حسنة قال فالصوف يا رسول الله؟ قال بكل شعرة من الصوف حسنة 

"اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا یا رسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت ہے، لوگوں نے پوچھا ان کا ہمارے لئے کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلہ ایک نیکی۔ انہوں نے پوچھا اور اون؟ فرمایا اون کے ہر بال کے بدلہ بھی ایک نیکی ہے۔" 

اس حدیث کی تخریج امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے "مسند" میں، امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے "سنن"  میں، امام ابن عدی رحمہ اللہ نے "کامل فی الضعفاء"  میں، امام حاکم رحمہ اللہ نے "مستدرک علی الصحیحین" میں اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے "سنن الکبریٰ" میں بطریق سلام بن مسکین عن عائذ اللہ عن ابی داؤد عن زید بن ارقم قال قال اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ فرمائی ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے "جامع" میں اس حدیث کو یوں ذکر فرمایا ہے
ويروي عن رسول الله صلي الله عليه وسلم انه قال في الاضحية لصاحبها بكل شعرة حسنة ويروي بقرونها
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ اور ابن ماجہ رحمہ اللہ کی روایت کو اپنی مشہور کتاب "منتقی الاخبار" کے "باب الحث علی الاضحیہ"  کے تحت وارد کیا ہے مگر اس کی صحت پر کوئی کلام نہیں کیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی "جامع" میں اس کو معلقا بدون اسناد ذکر فرما کر گویا اس کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ اپنی "مستدرک" میں فرماتے ہیں کہ "یہ حدیث صحیح الاسناد ہے" اس بات کے قطعی فیصلہ کے لئے جب ہم حدیث کی اسناد پر غور کرتے ہیں تو واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ زیر مطالعہ حدیث قطعا غیر صحیح اور ناقابل حجت ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی تصحیح فرمانے میں خطا کی ہے۔ آں رحمہ اللہ کا تصحیح احادیث کے معاملہ میں تساہل اہل علم حضرات کے نزدیک معروف و مشہور ہے۔ چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ "تلخیص المستدرک" میں امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح کا رد فرماتے ہوئے لکھتے ہیں
"میں کہتا ہوں عائذ اللہ کو ابو حاتم رحمہ اللہ نے منکر الحدیث بتایا ہے۔" اور علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
"اس حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ، ابن ماجہ رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ حاکم رحمہ اللہ نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں ایک راوی عائذ اللہ المجاشعی ہے جس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں لا يصح حديثه ، لیکن امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کی توثیق کی ہے جیسا کہ خلاصہ میں مذکور ہے۔"
واضح رہے کہ یہاں امام ذہبی اور علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے سند میں صرف عائذ اللہ المجاشعی کی ہی موجودگی کو ناقص صحت قرار دیا ہے گویا باقی دوسرے تمام رواۃ سالم ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے عائذ اللہ المجاشعی سے اوپر جو راوی ہے اس کا نام نفیع بن الحارث ابو داؤد الاعمی الکوفی ہے جو صرف مطعون ہی نہیں بلکہ تعصیب الجنایہ میں عائذ اللہ سے بھی بڑھ چڑھ کر ہے۔ ذیل میں سند کے ان دونوں مجروح راویوں کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کی کچھ آراء پیش خدمت ہیں 
زید بن ارقم سے روایت کرنے والے اس سند کے پہلے راوی نفیع بن الحارث کی قتادہ رحمہ اللہ نے تکذیب کی ہے، یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں " ليس بشئی (یعنی ہیچ ہے)" یحییٰ رحمہ اللہ کا دوسرا قول ہے "نہ ثقہ ہے اور نہ مامون" امام نسائی رحمہ اللہ، فلاس رحمہ اللہ اور دارقطنی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں "متروک الحدیث ہے۔" ابو زرعہ کا قول ہے کہ "وہ کچھ بھی نہیں تھا" امام بخاری فرماتے ہیں ائمہ جرح اس کے بارے میں کلام کیا کرتے تھے" ابن مہدی رحمہ اللہ کا قول ہے " يعرف و ينكر " امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "یہ وہ شخص ہے جو رفض میں غلو کرتا تھا" حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "متروک ہے، ابن معین رحمہ اللہ نے اس کی تکذیب کی ہے" علامہ ھیثمی رحمہ اللہ ایک مقام پر اسے "ضعیف" اور دوسرے مقام پر "متروک" بتاتے ہیں۔ بعض رواۃ کے ساتھ اس کا تدلیس کرنا بھی مروی ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں "یہ شخص ان میں سے تھا جو ثقات کی طرف سے توہما اشیائے موضوعات روایت کرتے ہیں، اس کے ساتھ نہ احتجاج جائز ہے اور نہ اس سے روایت لینا الا یہ کہ علی جہت الاعتبار ہو۔" وغیرہ 
اس سند کے دوسرے راوی عائذ اللہ المجاشعی ابو معاد بصری کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے " لا يصح حديثه " امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "ابو حاتم رحمہ اللہ نے عائذ اللہ کو منکر الحدیث قرار دیا ہے۔" حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں "ساتویں طبقہ کا ضعیف راوی تھا" امام بخاری رحمہ اللہ، امام عقیلی رحمہ اللہ اور امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ اپنی کتب الضعفاء (والمتروکین) میں اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المجروحین" میں درج کیا ہے۔ 
اس حدیث کے متعلق بعض مشاہیر علمائے حدیث کی آراء میں سے امام ذہبی رحمہ اللہ اور علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے اقوال تو اوپر بیان ہو چکے ہیں، چند مزید آراء ملاحظہ فرمائیں حافظ ابن العربی رحمہ اللہ "عارضۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی" میں فرماتے ہیں قربانی کی فضیلت میں بیان کی جانے والی کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے" بوصیری رحمہ اللہ "الزوائد" میں لکھتے ہیں "اس کی اسناد میں ابوداؤد ہے جس کا نام نفیع بن الحارث ہے، وہ متروک اور حدیث گھڑنے کے لئے مہتم ہے" حافظ منذری رحمہ اللہ "ترغیب والترہیب" میں فرماتے ہیں "یہ حدیث جس کی طرف امام ترمذی رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے ابن ماجہ رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ وغیرہ سب نے عن عائذ اللہ عن ابی داؤد عن زید بن ارقم قال بہ، روایت کی ہے ہم نے اس کے الفاظ انفا ذکر کئے ہیں" پھر حافظ منذری رحمہ اللہ حاکم رحمہ اللہ پر معقبا لکھتے ہیں "بلکہ یہ روایت واھی ہے۔ عائذ اللہ جو المجاشعی ہے اور ابو داؤد جو نفیع بن الحارث الاعمی ہے دونوں ساقط ہیں۔"  امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عائذ اللہ المجاشعی کے ترجمہ میں وارد کیا ہے اور فرماتے ہیں " لا يصح حديثه " امام بخاری سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ امام عقیلی نے بھی زیر مطالعہ حدیث کو عائذ اللہ کے ترجمہ میں ہی وارد کیا ہے جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نفیع بن الحارث کے ترجمہ کے تحت ذکر کیا ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نفیع بن الحارث اور عائذ اللہ دونوں کے تراجم میں نقل کیا ہے۔ خاتمہ بحث
ائمہ جرح و تعدیل اور کبار محدثین و شارحین حدیث کے مندرجہ بالا اقوال کی روشنی میں زیر مطالعہ حدیث کو کسی طرح بھی صحیح یا قابل حجت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کے مقبول ہونے کے قائل ہیں ان کے لئے بھی یہ حدیث کچھ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا مرتبہ "ضعیف" سے بہت فروتر "موضوعات" کے زمرہ میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق "سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ"  میں بیان فرمایا ہے۔ 

~~~~~~~~~~~~

حوالہ جات:

(1) جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج نمبر 2 ص 352

(2) سنن ابن ماجہ ص 226

(3) مستدرک للحاکم ج نمبر 4 ص 221-222

(4) شرح السنہ للبغوی ج نمبر 1/1 ص 129

(5) تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 2 ص 353

(6) منتقی الاخبار لابن تیمیہ مترجم ج نمبر 1 ص 1040

(7) مغنی لابن قدامہ ج نمبر 8 ص 618

(8) مجروحین لابن حبان ج نمبر 3 ص 151

(9) میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 4 ص 569

(10) علل المتناھیہ لابن الجوزی ج نمبر 2 ص 79

(11) فیض القدیر للمناوی ج نمبر 5 ص 458

(12) میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 2 ص 513، معرفۃ الرواۃ للذہبی ص 13، معرفۃ الثقات للعجلی ج نمبر 2 ص 64، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 456، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 6 ص 52، ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 2 ص 311، من کلام ابن معین فی الرجال ص 116، قانون الضعفاء للفتنی ص 274، تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 1 ص 376 ج نمبر 2 ص 352، نصب الرایہ للزیلعی ج نمبر 3 ص 101

(13) ترغیب للمنذری ج نمبر 2 ص 101

(14) میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 2 ص 228، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 2 ص 469، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 12 ص 221، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 2 ص 25، قانون الضعفاء للفتنی ص 261، تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 2 ص 352

(15) سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج نمبر 2 ص 14

(16) حیوۃ المسلمین للتھانوی ص 120، ماہنامہ محدث لاہور (قسط نمبر 3) ج نمبر 14 عدد نمبر 12 ص 27

(17) روزنامہ جنگ کراچی (عیدالاضحیٰ ایڈیشن) مجریہ 4 جولائی 1990ء

(18) ایضا

(19) ایضا

(20) ماہنامہ بینات کراچی ج نمبر 43 عدد نمبر 6 ص 36 ماہ ذوالحجہ 1403ھ

(21) روزنامہ نوائے وقت لاہور (عید الاضحیٰ ایڈیشن) مجریہ 4 جولائی 1990ء

(22) ایضا

(23) ایضا

(24)ایضاً

(25) معجم الکبیر للطبرانی ج نمبر 3/1 ص 104

(26) مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 4 ص 18

(27) ترغیب والترہیب للمنذری ج نمبر 2 ص 102

(28) تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 4 ص 467، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر ½ ص 309، ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 1 ص 244، جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 1 ص 44، مجروحین لابن حبان رحمہ اللہ ج نمبر 1 ص 235، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 2 ترجمہ 736، ضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 150، ضعفاء والمتروکون للدارقطنی ترجمہ نمبر 190، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 1 ص 210، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 1 ص 524-525، مغنی فی الضعفاء للذہبی ج نمبر 1 ص 168، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 2 ص 326، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 172، قانون الضعفاء للفتنی ص 250 تنزیہ الشریعہ لابن عراق ج نمبر 1 ص 51، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 1 ص 249 ج نمبر 2 ص 7

(29) تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 4 ص 412، 433، 457، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 1 ص 369، 370، ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 1 ص 88، جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 2 ص 191، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 1، ص 288، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 1، ص 240-244 ضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 34، ضعفاء و المتروکین لابن الجوزی ج نمبر 1، ص 118، قانون الضعفاء للفتنی ص 241، معرفۃ الرواۃ للذہبی ص 70، کنی دولابی ج نمبر 2 ص 25، سوالات السجزی للحاکم ص 9، سوالات ابن ابی شیبہ لعلی المدینی ص 161، تغلیق التعلیق لابن حجر ج نمبر 1 ص 266، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 73، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 321-326، تعریف اہل التقدیس لابن حجر ص 82، مجروحین لابن حبان ج نمبر 1، ص 124، الاعتبار للحازمی ص 9، تحقیق لابن الجوزی ج نمبر 1، ص 40، 109، 131، 132، 327، 351، کاشف فی معرفۃ من لہ روایہ فی الکتب الستہ للذہبی ج نمبر 1 ص 127، تاریخ بغداد للخطیب ج نمبر 6 ص 227، موضوعات ابن الجوزی ج نمبر 1 ص 158، 159، فوائد المجموعہ للشوکانی ص 472-473، سنن دارقطنی ج نمبر 1 ص 65، ج نمبر 4 ص 118، 230، سنن الکبریٰ للبیہقی ج نمبر 1 ص 89، 142، 240، ج نمبر 2 ص 256، ج نمبر 3 ص 138، ج نمبر 4 ص 150، ج نمبر 5 ص 333، ج نمبر 6 ص 48 ج نمبر 9 ص 326، فتح الباری لابن حجر ج نمبر 5 ص 375، 221 ج نمبر 9 ص 665 ج نمبر 13 ص 164، 374، 545 تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 1 ص 123، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 1 ص 16، 122 ج نمبر 3 ص 25، 60 ج نمبر 4 ص 38، ج نمبر 6 ص 1، ج نمبر 9، ص 285، نصب الرایہ للزیلعی ج نمبر 1 ص 80، 39، 103، 195، 414، ج نمبر 2 ص 167، 310، 329 ج نمبر 3 ص 235، 35 ج نمبر 4 ص 58، 107، 195، 123، 329، 340، 403

(30) تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 2 ص 501، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 4 ص 246 ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 4 ص 14، جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 3 ص 177، مجروحین لابن حبان ج نمبر 2 ص 231، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 6 ص 2105، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 3 ص 420، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 8 ص 465، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 2 ص 138، ضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 511، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 3 ص 29، قانون الضعفاء للفتنی ص 286-287، علل لاحمد بن حنبل ج نمبر 1 ص 389، تاریخ الداری عن ابن معین ص 159، 197، طبقات الکبریٰ لابن سعد ج نمبر 6 ص 349، معرفۃ الثقات للعجلی ج نمبر 2 ص 23، شرح صحیح مسلم للنووی ج نمبر 1 ص 51، 53 سنن دارقطنی ج نمبر 1 ص 67، 68، 331 ج نمبر 2 ص 191 ج نمبر 3 ص 269، سنن الکبریٰ للبیہقی ج نمبر 1 ص 108 ج نمبر 2 ص 120، 160 ج نمبر 4 ص 108 ج نمبر 5 ص 58، ج نمبر 7 ص 170، 192 ج نمبر 10 ص 38 ھدی الساری لابن حجر ص 349، فتح الباری لابن حجر ج نمبر 1 ص 258 ج نمبر 2 ص 214، 335، 417 ج نمبر 3 ص 233، 459، 534 ج نمبر 4 ص 167، 169، ج نمبر 5 ص 375 ج نمبر 10 ص 138 ج نمبر 11 ص 234، 594 ج نمبر 13 ص 429، تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 1 ص 261 ج نمبر 2 ص 216، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 1 ص 83 ج نمبر 3 ص 22 ج نمبر 6 ص 245، 279 ج نمبر 10 ص 94، 142، 180، 349، عون المعبود للعظیم آبادی ج نمبر 1 ص 49، بذل المجھود للسہارنپوری ج نمبر 1 ص 322، 325، نصب الرایہ للزیلعی ج نمبر 1 ص 417 ج نمبر 2 ص 9، 475، 334، 389، ج نمبر 3 ص 99، 102 ج نمبر 4 ص 27، 330، 411

(31) سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج نمبر 2 ص 13

(32) مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 4 ص 17

(33) تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 3 ص 554، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 2 ص 28، تاریخ الصغیر للبخاری ج نمبر 2 ص 292، ضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ نمبر 53، علل لابن حنبل ج نمبر 1 ص 4، معرفۃ والتاریخ للبستوی ج نمبر 3 ص 57، ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 2 ص 134، جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 2 ص 132، مجروحین لابن حبان ج نمبر 1 ص 333، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 3 ص 1096، ضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 247، ضعفاء والمتروکون للدارقطنی ترجمہ نمبر 256، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 2 ص 216، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 2 ص 22-23، کشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث للحلبی ص 202-203، قانون الضعفاء للفتنی ص 261، تنزیہ الشریعہ لابن عراق ج نمبر 1 ص 65، مختصر سنن ابی داؤد للمنذری ج نمبر 2 ص 187، نصب الرایہ للزیلعی ج نمبر 2 ص 338

(34) سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للالبانی ج نمبر 2 ص 15

(35) حیوۃ المسلمین للتھانوی ص 121

(36) مجمع الزوائد ج نمبر 4 ص 17

(37) جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 3 ص 229، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 5 ص 1798، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 3 ص 252-253، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 8 ص 21، تقریب التقریب لابن حجر ج نمبر 2 ص 68 ضعفاء والمتروکون للدارقطنی ترجمہ نمبر 390 قانون الضعفاء للفتنی ص 280، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 2 ص 224، کشف الحثیث عمن ری بوضع الحدیث للعجلی رحمہ الہ ص 322، سنن دارقطنی جلد نمبر 1 ص 102، 128، 221، تلخیص المستدرک للذہبی جلد نمبر 2 ص 12 ج نمبر 3 ص 138 جلد نمبر 4 ص 342، تنزیہ الشریعہ لابن عراق ج نمبر 1 ص 93، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 5 ص 171، نصب الرایہ للزیلعی ج نمبر 1 ص 20، 125، 205، 206، ج نمبر 4 ص 262

(38) سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج نمبر 2 ص 16

(39) معجم الکبیر للطبرانی ج نمبر 3/1 ص 102

(40) سنن دارقطنی ج نمبر 4 ص 282

(41) خلاصہ فوائد للدارقطنی ج نمبر 1 ص 80

(42) فوائد الھمدانی ج نمبر 1/1 ص 196

(43) جزء بیبی لابن ابی شرح ج نمبر ½ ص 168

(44) منتقی الاخبار لابن تیمیہ مترجم ج نمبر 1 ص 1041

(45) کنز العمال للمتقی ج نمبر 2 ص 371

(46) ترغیب للمنذری ج نمبر 2 ص 155

(47) جامع الصغیر للسیوطی ج نمبر 2 ص 142

(48) علل المتناھیہ لابن الجوزی ج نمبر 2 ص 78

(49) مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 4 ص 17

(50) مجروحین لابن حبان ج نمبر 1 ص 101

(51) معرفہ والتاریخ للبستوی ج نمبر 3 ص 42، جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 1 ص 146، مجروحین لابن حبان ج نمبر 1 ص 100، تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 3 ص 111، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 1 ص 336، تاریخ الصغیر للبخاری ج نمبر 2 ص 110، ضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ 12، ضعفاء الکبیر العقیلی ج نمبر 1 ص 70-71 ضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 14، ضعفاء والمتروکون للدارقطنی ترجمہ نمبر 13، قانون الضعفاء للفتنی ص 234، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 1 ص 60، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 1 ص 75، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 46، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 179-180 لسان المیزان لابن حجر ج نمبر 1 ص 125، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 1 ص 227، تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 4 ص 81، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 9 ص 315، تنزیہ الشریعہ لابن عراق ج نمبر 1، ص 25، نصب الرایہ للزیلعی ج نمبر 2 ص 77 ج نمبر 3 ص 8، 9، 12، 33، 34، 86

(52) سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج نمبر 2 ص 12

(53) کتاب الصیام للکیلانی ص 92

(54) الانعام: 162، 163

(55) مستدرک علی الصحیحین للھاکم ج نمبر 4 ص 222

(56) جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج نمبر 2 ص 352

(57) نصب الرایہ للزیلعی ج نمبر 4 ص 219

(58) مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 4 ص 17

(59) ضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 93، ضعفاء والمتروکون للدارقطنی ترجمہ نمبر 139، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 1 ص 158، قانون الضعفاء للفتنی ص 39، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 116، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 2 ص 7 جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 1 ص 450، مجروحین لابن حبان ج نمبر 1 ص 206، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 1 ص 520، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 1 ص 363، ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 1 ص 172، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 1 ص 165، تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 3 ص 279 تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 1 ص 52 ج نمبر 3 ص 96، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 1 ص 145، ج نمبر 3 ص 15، ج نمبر 4 ص 17 ج نمبر 5 ص 37، فتح الباری لابن حجر ج نمبر 13 ص 525

(60) حاشیہ مذکورہ

(61) سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج نمبر 2 ص 15

(62) مستدرک علی الصحیحین للحاکم ج نمبر 4 ص 222

(63) ترغیب ج نمبر 2 ص 102

(64) کما فی نصب الرایہ الزیلعی ج نمبر 4 ص 219

(65) مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 4 ص 17

(66) ضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 481، تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 2 ص 407، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 7 ص 8، تاریخ الکبیر العقیلی ج نمبر 3 ص 359 جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 6 ص 382، مجروحین لابن حبان ج نمبر 2 ص 176، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 5 ص 2007، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 3 ص 79، معرفۃ الثقات للعجلی ج نمبر 2 ص 140، علل لابن حنبل ج نمبر 1 ص 198، تہذیب الکمال للمزی ج نمبر 2 ص 940، تعریف اہل التقدیس لابن حجر ص 130، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 7 ص 224، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 2 ص 24، قانون الضعفاء للفتنی ص 278، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 2 ص 180، فتح الباری لابن حجر ج نمبر 9 ص 66، سنن دارقطنی ج نمبر 4 ص 39، تلخیص المستدرک للذہبی ج نمبر 4 ص 222 سنن الکبریٰ للبیہقی ج نمبر 2 ص 126، ج نمبر 6 ص 30، ج نمبر 7 ص 66، ج نمبر 8 ص 126، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 4 ص 59 ج نمبر 9 ص 109 ج نمبر 10 ص 331 ج نمبر 5 ص 74 ج نمبر 3 ص 180، تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 1 ص 347 ج نمبر 3 ص 210 ج نمبر 4 ص 60، نصب الرایہ للزیلعی ج نمبر 1 ص 389، 406، ج نمبر 2 ص 206، ج نمبر 3 ص 227، ج نمبر 4 ص 297، 219، 51، 68

(67) کتاب العلل لابن ابی حاتم ج نمبر 2 ص 38-39

(68) تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 2 ص 352

(69) مستدرک علی الصحیحین للحاکم ج نمبر 4 ص 222

(70) کنز العمال للمتقی ج نمبر 5 ص 221

(71) نصب الرایہ للزیلعی ج نمبر 4 ص 220

(72) تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 2 ص 352

(73) ضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 275، تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 2 ص 199، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 3 ص 472، ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 2 ص 105، جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 4 ص 21، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 3 نمبر 1212، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 2 ص 138، معرفۃ الرواۃ للذہبی ص 113، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 4 ص 32، معرفۃ الثقات للعجلی ج نمبر 1 ص 399، قانون الضعفاء للفتنی ص 258، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 1 ص 319، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 296، مجروحین لابن حبان ج نمبر 1 ص 320، فتح الباری لابن حجر ج نمبر 1 ص 244، تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 2 ص 249

(74) ضعفاء والمتروکون للنسائی ترجمہ نمبر 449، تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 3 ص 215، 375، 488 ج نمبر 4 ص 352، 378، علل لابن حنبل ج نمبر 1 ص 56، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 3 ص 328، تاریخ الصغیر للبخاری ج نمبر 1 ص 310، ضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ نمبر 83، ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 3 ص 268، جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 3 ص 230، مجروحین لابن حبان ج نمبر 2 ص 76، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 5 ص نمبر 1774، ضعفاء والمتروکون للدارقطنی ترجمہ نمبر 403، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 3 ص 257، مغنی فی الضعفاء للذہبی ج نمبر 2 ص 483، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 8 ص 27، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 2 ص 69، سیر اعلام النبلاء للذہبی ج نمبر 10 ص 428، قانون الضعفاء للفتنی ص 281، ضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج نمبر 2 ص 225، علل لابن ابی حاتم ج نمبر 1، ص 46، 48، 140، 151، ج نمبر 2 ص 10، 271، تنقیح ج نمبر 1 ص 166، 167، سنن دارقطنی ج نمبر 1 ص 156، 227، 364، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 1 ص 140، 246، تنزیہ الشریعہ لابن عراق ج نمبر 1 ص 93، نصب الرایۃ للزیلعی ج نمبر 1 ص 41، 186، 187، ج نمبر 2 ص 60، 120، 257 اور ج نمبر 3 ص 331

(75) حیوۃ المسلمین للتھانوی ص 121

(76) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3127

(77) کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر ½ ص 316-317

(78) مستدرک علی الصحیحین للحاکم ج نمبر 2 ص 389

(79) سنن الکبریٰ للبیہقی ج نمبر 9 ص 261

(80) جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج نمبر 2 ص 352

(81) منتقی الاخبار لابن تیمیہ مترجم ج نمبر 1 ص 1040-1041

(82) کنز العمال للمتقی ج نمبر 5 ص 239

(83) تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 2 ص 352-353

(84) ترغیب والترہیب للمنذری ج نمبر 2 ص 101-102

(85) ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 3 ص 419

(86) مجروحین لابن حبان ج نمبر 3 ص 55

(87) میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 2 ص 364 و ج نمبر 4 ص 272

(88) سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج نمبر 3 ص 157

(89) حیوۃ المسلمین للتھانوی ص 120

(90) کتاب الصیام للکیلانی ص 89

(91) منتقی من مسموعاتہ بمرو للضیاء المقدسی ج نمبر 2 ص 33

(92) تاریخ یحییٰ بن معین ج نمبر 3 ص 280، تاریخ الکبیر للبخاری ج نمبر 4/2 ص 295، تاریخ الصغیر للبخاری ج نمبر 2 ص 4-5، ضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ نمبر 120، ضعفاء الکبیر للعقیلی ج نمبر 4 ص 415، ضعفاء والمتروکون الدارقطنی ترجمہ نمبر 571، جرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج نمبر 4/2 ص 167، مجروحین لابن حبان ج نمبر 3 ص 121، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج نمبر 7 ص نمبر 2651، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 4 ص 395، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 252، تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 2 ص 353، ضعفاء والمتروکون لابن الجوزی ج نمبر 3 ص 199، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 5 ص 132، ج نمبر 10 ص 319

(93) تقریب التہذیب لابن حجر ج نمبر 1 ص 535، تحفۃ الاحوذی للمبارکپوری ج نمبر 3 ص 287، معرفۃ الثقات للعجلی ج نمبر 2 ص 112، میزان الاعتدال للذہبی ج نمبر 3 ص 11، تحفۃ اللطیفہ ج نمبر 3 ص 124، تہذیب التہذیب لابن حجر ج نمبر 7 ص 29، مجمع الزوائد للہیثمی ج نمبر 1 ص 167

(94) تلخیص للحافظ ج نمبر 4 ص 138

(95) مقاصد الحسنہ للسخاوی ص 58

(96) تمییز الطیب من الخیث الشیبانی ص 27-28

(97) کشف الخفاء و مزیل الالباس للعجلونی رحمہ اللہ ج نمبر 1 ص 133

(98) اسسنی المطالب للحوت بیروتی ص 55 

(99) الغماز علی اللماز للسمہودی ص 41

(100) درر المنشرۃ للسیوطی ص 83

(101) جامع الصغیر للسیوطی حدیث نمبر 992

(102) الجامع الکبیر للسیوطی ج نمبر 1 ص 106

(103) حیوۃ المسلمین للتھانوی ص 123

(104) فیض القدیر للمناوی ج نمبر 1 ص 496

(105) ضعیف الجامع الصغیر للالبانی ص نمبر 924

(106) سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج نمبر 3 ص 411

(107) مقاصد الحسنہ للسخاوی ص 58 و کشف الخفائ و مزیل الالباس للعجولنی ج نمبر 1 ص 133

(108) سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج نمبر 1 ص 102

(109) حیوۃ المسلمین للتھانوی ص 123

(110) خلاصہ لابن الملقن ج نمبر 2 ص 164

(111) سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج نمبر 1 ص 102

(112) مرقاۃ للقاری ج نمبر 2 ص 268

(113) تمییز الطیب من الخیث للشیبانی ص 28، مقاصد الحسنہ للسخاوی ص 58 اسنی المطالب للحوت بیروتی ص 55

(114) عارضۃ الاحوذی (کتاب الاضاحی) لابن العربی، تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج نمبر 2 ص 353، مقاصد الحسنہ للسخاوی ص 58، و تمییز الطیب من الخیث للشیبانی ص 27-28

(115) تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج نمبر 2 ص 353 

اتمام پیج 

شئیر 

.