جمعہ، 11 دسمبر، 2020

گیارہویں کی حقیقت حافظ صہیب ثاقب ‏

.

─━═✿📚 ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ📚✿═━─ 


گیارہویں کی حقیقت 

حافظ صہیب ثاقب 

<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<<؛ 

گیارہ ربیع الثانی شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی وفات کا دن ہے اس روز ان کےساتھ عقیدت کے دعویٰ دار گیارہویں کےنام سے ان کیلئے نیاز دیتے ہیں یعنی ان کے نام پر صدقہ کرتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر صدقہ کیا جاتا ہے، اس نیاز سے لوگوں کا مقصد شیخ عبد القادر جیلانی کی خوشنودی ہوتی ہے تاکہ وہ سال بھر ان پر نظر کرم فرمائیں اور ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت فرمائیں، کیوں کہ ان غالی عقیدتمندوں کا عقیدہ ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اپنی قبر میں زندہ ہیں، عالم الغیب ہیں اور کائنات میں تصرف فرماتے ہیں، بلکہ وہ انہیں ’’غوث الاعظم‘‘ (سب سے بڑا مدد گار) کہتے ہیں، اور اس بناء پر وہ ان سے مدد طلب کرتے ہیں اور ’’یاغوث الاعظم المدد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، شیخ  عبدالقادر جیلانیؒ کے متعلق یہ سارا عقیدہ صریح شرک پر مبنی ہے، کیونکہ کائنات میں تصرف کا اختیار، عالم الغیب ہونا، اور نفع و نقصان کا مالک ہونا، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 

[عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۹۲ۧ ] 

ترجمہ: 
اور وہ اللہ غیب اور ظاہر کو جاننے والا ہے اور لوگوں کے شرک سے بلند و بالاہے۔ 
(المؤمنون : ۹۲) 

نیز فرمایا: 
[اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ۝۰ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۝۶۲ۭ ] 
(النمل:۶۲) 

ترجمہ: 
’’کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف کو رفع کرتا ہے؟ اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے! کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی الٰہ بھی ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو۔ 

جب شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے نام کی گیارہویں کی بنیاد ہی باطل ہے تو گیارہویں خود بخود باطل ہوگئی۔ 

خود فقہ حنفی میں بھی اس کی صراحت موجود ہے کہ نذر و نیاز عبادت ہے اس لئے یہ کسی مخلوق کیلئے جائز نہیں، اگر کوئی ایسا کریگا تو کفر کریگا۔ 

درِ مختار کی مشہورشرح ’المعروف فتاویٰ شامی‘ میں اس کی شرح یوں کی گئی ہے یعنی: 

’’اس نذرِ غیراللہ کے باطل اورحرام ہونے کی کئی وجوہ ہیں: 

الف: 
یہ کہ قبروں کے چڑھاوے وغیرہ مخلوق کے نام کی نذریں ہیں اور مخلوق کے نام کی نذر جائز ہی نہیں۔ 

ب: 
اور یہ کہ جس کے نام کی نذر دی جاتی ہے وہ مُردہ ہے اور مُردہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ 

ج: 
اور یہ کہ نذر دینے والا شخص مُردوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ کے سوا، کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں حالانکہ مُردوں کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا بھی کفر ہے۔‘‘ 

اسی طرح امام بیضاوی ؒ کی تفسیر بیضاوی کے حاشیہ میں ہے کہ 
’’ہر وہ جانور جس پر غیراللہ کا نام پکارا جائے حرام ہے اگرچہ ذبح کے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو‘‘ 

بلاشبہ ایصال ثواب کے لئے صدقہ کرنا جائز ہے لیکن بلا کسی دن کے تعین کے 

پیرعبدالقادر جیلانیؒ کی گیارہویں اور دیگر اولیاء کرام کے نام کی نذر و نیاز دینے والا اسے ایصال ثواب کا نام دیکر مغالطہ دینے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ گیارہویں اور نذر و نیاز ایصال ثواب نہیں، کیونکہ ایصال ثواب تو میت کو ثواب پہنچانے کیلئے ہوتا ہےجبکہ گیارہویں یا دیگر اولیاء کی نذر و نیاز تو ان بزرگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہے تاکہ وہ ان پر خوش ہو کر سال بھر ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کریں 

بعض لوگوں کو تو یہ کہتے ہوئے سناگیا ہے کہ ہمارے مال و متاع اور تجارت کی حفاظت اور اس میں برکت کی وجہ ہمارا پابندی سے گیارہویں کرنا ہے 

اور کسی سے سنا گیا ہے کہ ہم نے ایک سال گیارہویں کرنےمیں سستی و غفلت کی اس سال میں ہمیں بہت مالی نقصان ہوا۔ 

بہرحال گیارہویں کےنام پر دیگیں پکائی جائیں یا جانور ذبح کیاجائے یا بغداد کی طرف منہ کر کے پیر عبدالقادر جیلانیؒ کے نام کی صلاۃ غوثیہ پڑھی جائے یا گیارہویں کےجلوس نکالے جائیں وہ ایصالِ ثواب بالکل نہیں۔ 

حقیقت یہ ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی وفات چھٹی صدی ہجری میں ہوئی جبکہ وفات کے بعد کئی صدیوں تک گیارہویں کو کوئی نہیں جانتا تھا علاوہ ازیں پاک و ہند کے علاوہ کسی بھی علاقے میں گیارہویں کا کوئی تصور نہیں، لہذا ایسی نذر و نیاز کی دعوتوں میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہئے اور اس کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہئے۔ 

.